جمعه: 1403/01/31
Printer-friendly versionSend by email
منتظرین کی اہم ذمہ داری
مہدویت کے سلسلہ میں مرجع عالیقدر آیت الله العظمی صافی کے نوشتہ جات

منتظرین کی اہم ذمہ داری

مہدویت کے سلسلہ میں  مرجع عالیقدر آیت الله العظمی صافی کے نوشتہ جات

 

بسم الله الرحمن الرحیم

قالَ اللهُ تَعالی: (وَ لَقَدْ کَتَبْنا فِی الزَّبورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ انَّ الاَرْضَ یَرِثُها عِبادِی الصّالِحُونَ)(1)

نیمه شعبان کی عظیم عید اور یگانہ منجی عالم کی ولایت،موعود انبیاء و اوصیاء،صفی انبیاء،صاحب الزمان و کہف امان حضرت بقیة ‌الله ارواح العالمین له الفداء کی محافل جشن تمام شیعوں اور  اس ولیّ‌ یزدان کے محبوں کے لئے بہت بابرکت ومبارک موقع ہے کہ یوم اللہ اور اس بابرکت دن کے مولود کی روحانی مجالس و ولائی اجتماعات،جشن و سرور  کی نورانی محافل میں شرکت کرکے آنحضرت کے ساتھ معنوی رابطہ برقرار کریں  اور اخلاق کے مرتبہ و موافقت،فردی رفتار و کردار،سماجی ،سقافتی ،اقتصادی و سیاسی صورت حال  کا جائزہ لیں اور خدا کی اس برگزیدہ ہستی کی اپنے شیعوں سے توقعات کا تجزیہ کریں ۔

جو شخص اور سماج  اس محسابہ  اور امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی رضائیت کے حصول میں کامیاب ہوجائے وہ یقیناً سعادتمند ہے۔اسی مناسبت سے میں حقیر امام منتظر حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کی محافل جشن میں شرکت کے افتخارات اور انتظار ظہور کے معنی و حقائق پر توجہ کرنےکی متعلق اپنے مؤمن بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں کچھ کلمات بیان کرنا چاہتا ہوں۔

جشن کی ان محافل میں شریک ہونے والوں، چراغاں کرنے والوں،بازاروں ،گلی کوچوں ،مسجدوں،امام بارگاہوں کو سجانے والوں ، فضائل ومناقب کے بیانات ، تقاریر ،قصائد،اشعار ،مدح خوانی کی محافل کا انعقاد  کرنے والوں اور آنحضرت سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرنے والوں ،ضیافت و طعام   اورتبرک کا اہتمام کرکے اپنی اور دوسروں کی روحانی و ایمانی نشاط میں اضافہ کرنے والوں،اپنے شیعہ ہونے پر افتخار کرنے والوں،امام عصر کے فراق میں گریہ و نالہ کرنے والوں،آنحضرت کو پکارنے والوں اوریابن الحسن، یابن الحسن کہنے ولوں کو خدا کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ جس نے ان کے قلوب کوامام زمانہ علیه السّلام کی معرفت سے سرشار فرمایا اور انہیں جاہلیت کی موت سے نجات دی اور حجت تامہ، کلمهٔ کامله سبحان کی منزل حقیقت اور  ایمان و معرفت کی طرف ہدایت فرمائی۔

یہ جان لیں کہ زمانۂ غیبت امتحان و آزمائش  اورخالص ہونے کا زمانہ ہے۔سعادتمند اور ایمان پر ثابت قدم رہنے والے غیبت کے  زمانے میں بھی اس انسان ساز مکتب سے وابستہ رہ کر خودسازی کرتے ہیں ۔ مختلف حوادث،مشکلات اور سختیاں  انہیں کمزور نہیں کر سکتیں اور ان  کے ایمان کو متزلزل نہیں کر سکتیں اور وہ تند و تیز ہواؤں کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرتے ہیں  کہ جس کی وجہ سے وہ کمزور ایمان اور ارادے کے حامل افراد سے ممتازہوتے ہیں۔

جس قدر بھی دین و دینداری سے وابستہ رہنا دشوار ہوتا جائے اورمختلف قسم کی  ظاہری محرومیت وجود میں آتی جائیں اسی قدر ان کا ایمان اور عہد و پیمان مزید قوی ہوتاجائے گا اور ان پر ایسی حدیثوں کی صداقت و سچائی واضح ہوتی جائے گی کہ جن میں زمانہ ٔ غیبت کے واقعات،کچھ گناہوں کے عام ہونے ،غنا و موسیقی،لڑکے اور لڑکیوں کی صورت حال ،مرد و زن کے اختلاط اور دوسرے امور کی خبر دی گئی ہے۔بعض روایات کے مطابق ان شرائط میں دین کی حفاظت و نگہداری اس طرح سخت و دشوار ہو جائے گی کہ  جس طرح  ہاتھ کی ہتھیلی پر  آگ کی حفاظت کرنا۔نیز دیگر حدیث میں بیان ہوان ہے: (إن لصاحب هذا الامر غیبة المتمسّک فیها بدینه کالخارط للقتاد)(2)

غیبت کے اس زمانے میں ایمان پر ثابت رہنے والوں کو رسول اعظم اسلام صلّی الله علیه و آله و سلّم کے ہمراہ تلوار سےجهاد کرنے والوں کا ثواب ملے گا اور وہ اس قدر بلند مرتبہ ہیں کہ پیغمبر اکرم صلّی الله علیه و آله و سلّم نے انہیں اپنا بھائی کہا ہے اور احادیث کی رو سے آنحضرت کو ان سے ملنے کا اشتیاق ہے۔زمانۂ غیبت کے مؤمنین حزب اللہ ہیں اور وہ ظہور اور اسلام کی عالمی حکومت کے حقیقی منتظر ہیں کہ احادیث میں فرمایا گیا ہے:(اولئک هم المخلصون حقّا و شیعتنا صدقاً و الدّعاة الی دین الله و جهرا اُولئک الذین یومنون بالغیب ثم اولئک حزب الله الا ان حزب الله هم المفلحون)(3) اور اس حدیث مبارکہ  (المنتظر لامرنا کالمتشحِّط بدمه فی سبیل الله)(4) کی رو سے وہ اس شخص کی طرح ہیں کہ جو راہ خدا میں خون میں ڈوبا ہو.

یہ سب آپ شیعوں،منتظرخواتین و حضرات،احکام کی پابندی کرنے والوں اور امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے وفاداروں کے فضائل ہیں۔

حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے منتظرین کو عاقل و ہوشیار ہونا چاہئے اور ان فضائل کی پاسداری کرنی چاہئے کہ کہیں وہ سوء تلقین (غلط پروپیگنڈوں)  اور فریب دینے والے الفاظ سے دھوکا کھا کر احکام الٰہی کے سامنے تسلیم ہونے سے دستبردار نہ ہو جائیں اور حکومت الٰہی و قرآن اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف  کے تحت سے خارج نہ ہو جائیں۔

انسانی حقوق ؛ یعنی مرودوں اور عورتوں کے وہی حقوق ہیں ؛ جو خدائے بشر اور خدائے مرد و زن نے معین فرمائے ہیں اور ان کے علاوہ باقی سب گمراہی و ضلالت اور فساد و تباہی کا خزانہ ہیں کہ جو حیوانی زندگی کی طرف جانے کا راستہ ہیں۔

احکام الٰہی میں سے کسی حکم کو قبول نہ کرنے والے مرد و زن ، بوڑھے اور جوان یا تو مغرب کےغیر سماجی اور بیہودہ امور سے متاثر ہیں کہ جو زمانے کے لئے مناسب نہیں ہیں اور جن سے ان کا ایمان مخدوش و کھوکھلا ہو جائے گا۔اسی لئے احادیث شریفه میں وارد ہوا ہے که «زمانۂ غیبت، میں مؤمن صبح کے وقت با ایمان ہوگا اور رات کے وقت دین سے خارج ہو چکا ہو گا»۔

میں خاص طور سے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ احکام اسلام کو مغربی ثقافت اور لادینی کے مطابق بنانے اور ان کی تأویل کرنےوالوں سے ہوشیار رہیں اور اشتباہ کے شکار نہ ہوں؛وہ ایک اور دور جاهلیت کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔روایت کی رو سے غیبت کا زمانہ طولانی ہو گا یہاں تک کہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں : (ما اطول هذا العناء و ابعد هذا الرجاء)(5)

انسان اپنی حیات میں مختلف مکاتب و مذاہب میں تحولات اور تبدیلیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اور وہ یہ دیکھتا ہے کہ ان میں سے کسی میں بھی بشر کی سعادت کی شرائط موجود نہیں ہیں اور وہ عدل و انصاف کو نافذ کرنے سے عاجز و ناتواں ہیں اگرچہ دنیا ظلم و جور ،فساد،بدامنی اور تباہی سے بھری ہوئی ہے لیکن اَلشَّیءُ اِذا جاوَزَ حَدُّهُ اِنْعَکَسَ ضِدّه کی رو سے  انسانی سماج نظام الٰہی و اسلامی اور دنیا کی واحد عادل عالمی حکومت کے لئے تیار ہورہا ہے اور امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور سے دنیا کمال اور ارتقاء کی اوج پر ہو گی۔

غیبت کا زمانہ دین کے امور پر عمل کرنے،جد و جہد  کرنے ،ذمہ داریوں کو قبول کرنے اور انہیں ادا کرنے کا زمانہ ہے ، یہ مقاوت ،ثابت قدمی ، استقامت اور صبر کا زمانہ ہے۔

 شعائر کی تعظیم ، کلمة الله کی سربلندی،اسلام کی تبلیغ ،سیاسی،اقتصادی،ثقافتی امور میں استقال،کفّار کی وابستگی سے نجات،علمی و صنعتی میدان میں ترقی ،تعلم و تربیت کی نشر و اشاعت ،امر به معروف و نهی از منکر، نیکی و تقویٰ میں تعاون ، غریبوں کی مدد ، ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا، محتاجوں کو دستگیری کرنا،اسلامی ممالک کی جغرافیائی،فکری اور عقیدتی حدود کا دفاع کرنا، اہل شکوک اور اہل شبہ کے شکوک و شبہات کا جواب دینا،برائیوں اوراحکام الٰہی کی ہتک حرمت کا مقابلہ کرنا ہم سب مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور ہم اس سلسلہ میں جوابدہ ہیں.

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے منتظرین کو چاہئے کہ وہ اسلامی سماج کو لاحق خطرات کو پہچانیں کہ جنہوں نے بڑی حد تک معاشرے کے بہت بڑے حصہ کو کمزور ،زبوں حالی اور کفار کی اطاعت میں مبتلا کر دیا ہے اور منتظرین کو چاہئے کہ وہ ہمارے سماج اور ہماری عزیز نوجوان نسل کو اس میں مبتلا  ہونے سے بچائیں۔زمانۂ غیبت ذمہ داریوں کا زمانہ ہے،اعمال و اقدام کا زمانہ ہے،امیدکا زمانہ ہےاورباطل پر حق کی کامیابی کا زمانہ ہے،منتظر بنیں اور عمل کریں کیونکہ خداوند کریم فرماتا ہے: (وَ قُلِ اعْمَلُوا فَسَیَری اللهُ عَمَلَکُمْ وَ رَسُولُهُ وَ الْمُؤْمِنونَ)(6)

 

حوالہ جات:

۱۔اور ہم نے ذکرکے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔/ سوره انبیا، آیه،۱۰۵.

۲.  اس امر کے صاحب [امام مهدی، علیه السّلام] کی ایسی غیبت ہے اور جو اپنے دین کی حفاظت کرنا چاہئے وہ ایسے ہی ہے کہ جیسے اپنے ہاتھ پر کسی خاردار درخت کی حفاظت کرنے کا ارادہ کرے۔./الغیبة نعمانی، ص۱۱۲.

۳. بیشک وہ مخلص و حق پر تھے اور ہمارے سچے شیعہ تھے اور بطور آشکار و نہاں دین خدا کی طرف دعوت دیتے ہیں ،بیشک وہ غیب پر ایمان لائے ہیں پس وہ حزب اللہ ہیں۔آگاہ ہو جاؤ حق کے طرفدار ہی فلاح یافتہ ہیں./صدوق، محمّد؛ کمال الدّین، ص۲۲۰.

۴. ہمارے امر کا منتظر ایسے ہے کہ جیسے وہ راہ خدا میں اپنے خون میں ڈوبا ہو./المحاسن للبرقی،ص۵۰.

۵. یہ دور و رنج کس قدر طولانی ہے اور امید کس قدر دور ہے./نهج البلاغه فیض الاسلام، خطبه ۲۲۹.

۶. اور کہو کہ اپنا کام کریں اور جلد خداوند اور پیغمبر اور مؤمنین تمہارے کام کو دیکھیں گے./سوره توبه، آیه ۱۰۵.

 

شماره‌های قبل:

 

 
 
Saturday / 20 April / 2019