پنجشنبه: 1403/01/30
Printer-friendly versionSend by email
مناسک حج
بِسْمِ الله الرّحْمن الرّحِیْم

اَلْحَمدُلِلّٰهِ رَبِّ الْعالَمِیْنَ، وَالصَّلوةُ وَالسَّلامُ، عَلی خَیْرِ خَلْقِهِ وَاَشْرَف بَریَّتِهِ مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطّاهِرِینَ، لاَسیَّما بَقیَّةُ اللّهِ فی الأرضینَ، وَلَعْنَةُ اللهِ عَلی أعْدائِهِمْ أجمَعینَ إلی قِیامِ یَوْمِ الدِّینِ.

حج کی فضیلت

قال الله تعالی: «ولله عَلی النّاسِ حِجُّ البَیْتِ مَنِ استَطَاعَ إِلیهِ سَبِیلاً وَمَنْ كَفَرَ فإنَّ الله غَنِیٌّ عَنِ العٰالَمینْ»(۱ ۔ سوره آل عمران، آیه 97)

دین اسلام کے واجبات اور فرائض میں حجّ بیت الله الحرام ایک خاص مقام کا حامل ہے ۔

اس کے تربیتی ، سیاسی و سماجی فوائد اور حكمتیں بہت زیادہ ہیں ۔ حج ایک ایسا مدرسہ اور دانشگاہ ہے کہ جس کی کلاسوں میں اسلام کی تعلیمات و ہدایات ، قرآن کریم کے معارف اور ارکان و دستورات پر عمل کی تعلیم دی جاتی ہے ۔

حج کے اعمال کی انجام دہی سے حقیقی اسلام (یعنی ؛ احکام کے سامنے تسلیم محض اور خداوند متعال کی خالص اطاعت ) ظاہر ہوتا ہے ۔ اس کے تمام مواقف و مشاعر تعمیراتی ہیں کہ جو فکر کے رشد  ، روح کے عوالم غیر متناہی کی طرف پرواز ، جہاد با نفس ، درس اور رحمانی و ملکوتی فضا میں سیر کرنے کا باعث ہے ۔

حج ، عبادات اور اہم دینی وظائف پر مشتمل ہے جیسا کہ ؛ نماز، دعا، انفاق، بارگاہ الٰہی میں خشوع و خضوع ، خود پر مکمل کنٹرول ، صبر ، شہوت سے پرہیز ، مسلمانوں سے آشنائی ، دنیائے اسلام کے اہم سماجی و سیاسی اور معاشرتی مسائل سے آگاہی ،اعلاء  كلمه اسلام ، مشرق و مغرب اور دنیا کے دور افتادہ علاقوں میں خاتم الأنبیاء حضرت محمد مصطفی صلی الله علیه و آله و سلم کی دعوت کا ظہور اورنفوذ ، پوری دنیا سے ایک اجتماع میں لاکھوں افراد کی شرکت اور ان کے علاوہ بہت سے دیگر امور حج کے باب میں ہی درج ہیں ۔

المختصر یہ کہ ؛ یہ عظیم فریضہ بہت سے فضائل کا حامل ہے اور اس کے مقرر شدہ اعمال میں سے ہر ایک عمل بے شمار ثواب رکھتا ہے ۔ جو لوگ حج سے مشرف ہوتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ ان نورانی اعمال کی انجام دہی کے تشرف کو درک کریں اور اس پُرفیض اجتماع میں شرکت کو عظیم توفیق شمار کرتے ہوئے اس کے ہر مواقف سے معنوی طور پر مستفید ہو کر خودسازی کو اپنا نصب العین قرار دیں ۔ اور بالخصوص ہر مشاہد و مقامات مقدسہ میں حضرت صاحب الامر ارواح العالمین له الفداء کے ظہور میں تعجیل کی دعا کریں ۔

احكام حج

مسأله 1. ہر مستطیع مکلف پر پوری زندگی میں ایک مرتبہ حجة ‌الاسلام واجب ہوتا ہے ، لہذا اس کے اعمال کو بجا لانا چاہئے ۔

مسأله 2. مستطیع پر واجب ہے کہ وہ  استطاعت کے پہلے سال حج بجا لائے اور کسی عذر کے بغیر اس میں تأخیر کرنا گناہ کبیرہ ہے ۔ اور اگر مکلف پہلے سال حج نہ کرے  اور آئندہ سال تک اس کی استطاعت زائل ہو جائے تو اس سے حج ساقط نہیں ہو گا بلکہ اسے چاہئے کہ ہر ممکن صورت میں حج بجا لائے ۔

حج کی اقسام

مسأله 3. حج کی تین قسمیں ہیں :

1. «حج تمتع» یہ ان لوگوں کا فریضہ ہے کہ جن کے گھر اور مکۂ معظمہ کے درمیان 16 فرسخ شرعی یا اس سے زائد فاصلہ ہو ۔

2 اور 3. «حج قِران» اور «اِفراد» یہ مکۂ  معظمه کے رہنے والوں اور ان لوگوں کا فریضہ ہے کہ جن کے گھر اور مکۂ  معظمه میں 16 فرسخ شرعی سے کم فاصلہ ہو  ۔ اور ان پر واجب ہے کہ وہ حج کے بعد «عمره مفرده» بجا لائیں ۔

مسأله 4. حجة ‌الاسلام کے لئے فریضہ کا تعین وہی ہے کہ جسے بیان کیا گیا ہے ، لیکن مستحب حج میں اہل مکہ بھی حج تمتع بجا لا سکتے ہیں اور جن لوگوں کے گھر مکۂ مکرمہ سے 16 فرسخ یا اس سے زیادہ دور ہوں ، وہ  حج قران یا افراد بجا لا سکتے ہیں ۔ جی ہاں ! مستحب حج میں دونوں طرح کے لوگوں کے لئے تمتع افضل ہے ۔

حج قِران

قران بھی تمام اعمال میں حج افراد کی طرح ہے مگر یہ ہے کہ حج افراد میں قربانی نہیں ہے ، جب کہ حج قران میں مكلف (حاجی) قربانی کو اپنے ساتھ لے کر آتا ہے اور وہ اسے کو  ذبح یا نحر کرے اور ایسے شخص کو اختیار حاصل ہے کہ وہ عقد احرام میں تلبیہ کہے یا اشعار (حیوان پر علامت لگانا) اور یا تقلید (حیوان کی گردن میں کسی چیز کا لٹکانا) کرے اور وہ جس سے بھی آغاز کرے اس کا حرام اسی سے منعقد ہو جاتا ہے اور چونکہ حج افراد اور قِران زیادہ مبتلا بہ نہیں ہے لہذا ہم اسی مختصر اشارہ پر ہی اکتفاء کرتے ہیں ۔ بعض وجوہات کی بناء پر جن کا عمرۂ تمتع ، حج افراد میں تبدیل ہو جاتا ہے ، اس کا بیان اس کے مقام پر بعد میں ذکر ہو گا ۔

حج اِفراد

 حج افراد کی کیفیت م آداب ، واجب اور مستحب اعمال حج تمتع کی طرح ہی ہیں ۔ اور ان کے درمیان چند چیزوں میں اختلاف ہے :

1. مكلف کو چاہئے کہ وہ کسی ایک معروف میقات سے ہی احرام باندھے اور عرفات کی طرف جائے جب کہ حج تمتع میں مکہ سے احرام باندھے ۔ جی ہاں ! جن کا فریضہ حج تمتع ہے ، وہ میقات سے عمرۂ تمتع کے لئے احرام باندھیں اور بعد میں کسی عذر کی وجہ سے ان کا عمرہ ، حج افراد میں تبدیل ہو جاتا ہے یا اسی احرام کے ساتھ عرفات کی طرف چلے جاتے ہیں ۔

2. حج افراد میں قربانی نہیں ہے ۔

3. حج افراد کی انجام دہی کے بعد عمرۂ مفردہ بجا لانا چاہئے ۔

4. حج افراد انجام دینے والے کے لئے وقوفِ عرفات و مشعر سے پہلے طواف زیارت اور سعی کو انجام دینا جائز ہے لیکن یہ مکروہ ہے اور اسے ترک کرنا احوط ہے ، اور یہ حج تمتع کے برخلاف ہے کہ جس میں طواف اور سعی کو وقوفین (وقوف عرفات اور وقوف مشعر) پر مقدم کرنا جائز نہیں ہے ، مگر اضطراری صورت میں کہ جسے آئندہ مسائل میں بیان کیا جائے گا  ۔

حج تمتّع

چونکہ فارسی زبان اور ایرانیوں پر بلکہ اکثر و بیشتر مسلمانوں پر حج کی یہی قسم یعنی حج تمتع واجب ہے لہذا ہم انشاء الله تعالی حج تمتع کے احکام اور مسائل تفصیل  کے ساتھ بیان کریں گے ۔

مسأله 5. حج تمتع دو عبادتوں سے مركب ہے کہ جن میں سے پہلے کو «عمرهٔ تمتع» اور دوسرے کو «حج تمتع» کہتے ہیں ۔ عمرهٔ تمتع کو حج تمتع سے پہلے بجا لانا چاہئے ۔ اور اگر کوئی بعد میں ذکر ہونے والی تفصیل کے مطابق کسی عذر کی وجہ سے عمرۂ تمتع کو حج تمتع سے پہلے انجام نہ دے سکے تو اس کا حج ، «حج افراد» ہو جائے گا ۔

مسأله 6. تمام دوسری عبادات کی طرح حج کی انجام دہی میں بھی «قصد قربت» لازم ہے ۔ اور اس کے لئے یہی کافی ہے کہ احرام باندھنے سے پہلے قصد کرے کہ خدا کے لئے عمرہ اور واجب حج انجام دیتا ہوں ۔ اور ابتداء سے ہی حج تمتع کی صورت کو جاننا ضروری نہیں ہے ، پس اگر احرام  باندھتے وقت حج کے تمام واجب اعمال کو نہ جانتا ہو لیکن یہ نیت کرے کہ خداوند متعال کے امر کی اطاعت کے لئے اپنا واجب عمرہ اور حج انجام دیتا ہوں اور اس کا قصد یہ ہو کہ اس عمل میں مشغول ہونے کے بعد اپنے پاس موجود توضیح المسائل یا کسی مجتہد کے حکم یا اپنے ساتھ موجود قابل وثوق عالم کے حکم کے مطابق عمل کرے تو اس کا یہ عمل صحیح ہے ۔

عمره تمتّع

مسأله 7. «حج تمتع» کا پہلا عمل «عمرهٔ تمتع» ہے اور عمرهٔ تمتع میں پانچ چیزیں واجب ہیں :

1. احرام ۔

2. خانهٔ كعبه کا طواف کرنا ۔

3. دو ركعت نماز طواف ۔

4. صفا و مروه کے درمیان سعی کرنا ۔

5. تقصیر ۔

ان میں سے ہر ایک کے احکام کی تفصیل ذخر ہو گی ۔ ان شاء الله تعالی.

 اِحرام عمره کے مستحبات 

مسأله 8. احرام سے پہلے ، احرام کے مہیا ہونے کے وقت ، احرام باندھتے وقت اور اس کے بعد دس چیزیں مستحب ہیں :

1. احرام سے پہلے بدن کو پاک وپاکیزہ کرنا ، ناخن اور شارب کاٹنا ، اور نورہ کے ساتھ زیر بغل اور زیر ناف بال کاٹنا ۔

2. میقات میں غسل احرام انجام دینا اور جب میقات میں پانی کی عدم موجودگی کا احتمال ہو تو میقات پر پہنچنے سے پہلے ہی غسل کرنا جائز ہے ۔ اور اگر میقات سے پہلے غسل کرے اور میقات میں پانی میسر ہو تو مستحب ہے کہ میقات میں دوبارہ غسل کرے ، اور اگر غسل کرنے کے بعد سو جائے یا کوئی ایسی چیز کھائے یا پہنے کہ جس کا کھانا یا پہننا محرم کے لئے جائز نہیں ہے ، یا خوشبو کا استعمال کرے تو اس صورت میں مستحب ہے کہ دوبارہ غسل کرے ۔ اور اگر سونے کے علاوہ کوئی دوسرا حدث اصغر سرزد ہو جائے تو بہتر ہے کہ رجاءاً غسل کو اعاده كرے ۔ دن کا غسل رات کے وقت اور رات کا غسل دن کے وقت کفایت کرتا ہے ، اور خاص طور پر اگر رات کا غسل رات کے آخر میں اور دن کا غسل دن کے آخر میں ہو ۔ اور بہتر یہ ہے کہ دن کے لئے دن کی ابتداء اور رات کے لئے رات کی ابتداء میں غسل کرنے پر اکتفاء کرے ۔ حائض و نفسا پر بھی احرام کا غسل مستحب ہے ۔ اور حدث سے طہارت احرام کی شرط نہیں ہے ۔

3. غسل کرتے وقت یہ دعا پڑھی جائے:

بِسْمِ اللهِ وَبِاللهِ، اَللّهُمَّ اجْعَلْهُ لِی نُوراً وَطَهُوراً وَحِرْزاً وَاَمْناً مِنْ كُلِّ خَوْفٍ وَ شِفآءً مِنْ كُلِّ دآءٍ وَسُقْمٍ، اَللّهُمَّ طَهِّرْنِی وَ طَهِّرْ قَلْبِی، وَاشْرَحْ لِی صَدْری، وَاَجْرِ عَلیٰ لِسانِی مَحَبَّتَكَ وَمِدْحَتَكَ وَالثَّنآءَ عَلَیْكَ، فَاِنَّهُ لا قُوَّةَ لِی اِلّا بِكَ وَقَدْ عَلِمْتُ اَنَّ قِوامَ دِینِی التَّسْلِیمُ لَكَ، وَالْاِتِّباعُ  لِسُنَّةِ نَبِیِّكَ صَلَواتُكَ عَلَیْهِ وَآلِهِ.

4. علماء کے درمیان مشہور ہونے کی بناء پر یکم ذی القعدہ سے سر ار داڑھی کے بال نہ کاٹنا اور نہ تراشنا مستحب ہے ۔ بلکہ اسے ترک کرنا احوط اور اولی ہے ۔ نیز بعید نہیں ہے کہ عورتوں کے لئے بھی یکم ذی القعدہ سے سر نہ بال نہ کاٹنا مستحب ہو ۔

5. ظہر کی نماز کے بعد احرام باندھنا ۔ اور اگر دیگر نمازوں کے اوقات میں احرام باندھنا چاہے تو ان میں سے کسی ایک نماز کے بعد احرام باندھا جائے  ، ورنہ قضا نماز کے بعد احرام باندھے اور اگر اس کے ذمہ کوئی قضا نماز نہ ہو تو چھ رکعت نماز پڑھے یا کم سے کم دو رکعت نماز پڑھے کہ جس کی پہلی رکعت میں الحمد کے بعد

سوره قُلْ هُوَ اللهُ اَحَد (سورۂ توحید) اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد سوره قُلْ یا اَیُّها الْكافِرُون (سورۂ کافرون ) پڑھے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد جب احرام کی نیت کرنا چاہے تو خداوند کریم کی حمد و ثناء بجا لائے اور محمد و آل محمد صلوات الله علیہم پر درو بھیجے اور پھر یہ دعا پڑھے :

اَللّهُمَّ اِنِّی اَسْأَلُك أنْ تَجْعَلَنِی مِمَّنِ اسْتَجابَ لَكَ وَاٰمَنَ بِوَعْدِكَ واتَّبَعَ اَمْرَكَ، فَاِنِّی عَبْدُكَ وفِی قَبْضَتِكَ، لا اُوْقیٰ اِلّا ما وَقَیْتَ وَلا اٰخُذُ اِلّا ما اَعْطَیْتَ، وَقَدْ ذَكَرْتَ الْحَجَّ فَاَسْأَلُكَ اَنْ تَعْزِمَ لِی عَلَیْهِ عَلیٰ كِتابِكَ وَسُنَّةِ نَبِیِّكَ صَلَواتُكَ عَلَیْهِ وَآلِهِ، وَتُقَوِّیَنِی عَلیٰ ما ضَعُفْتُ عَنْهُ وَتُسَلِّمَ لِی مَناسِكِی فِی یُسْرٍمِنْكَ وَعافِیَةٍ، وَاجْعَلْنِی مِنْ وَفْدِكَ الَّذِین رَضِیتَ وارْتَضَیْتَ وَ سَمَّیْتَ وَكَتَبْتَ، اَللّهُمَّ اِنِّی خَرَجْتُ مِنْ شُقَّةٍ بَعِیدَةٍ، وَاَنْفَقْتُ مالِیَ ابْتِغآءَ مَرْضاتِكَ، اَللّهُمَّ فَتَمِّمْ لِی حَجَّتِی وَعُمْرَتِی، اَللّهُمَّ اِنِّی اُرِیدُ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ  اِلَی الْحجِّ عَلیٰ كِتابِكَ وَسُنِّةِ نَبِیِّكَ صَلَواتُكَ عَلَیْهِ وَآلِه، فَاِنْ عَرَضَ لِی عارِضٌ یَحْبِسُنِی فَحُلَّنِی حَیْثُ حَبَسْتَنِی بِقَدرِكَ الَّذِی قَدَّرْتَ عَلَی، اَللّهُمَّ إنْ لَمْ تَكُنْ حِجَّةً فَعُمْرَةً اُحْرِمُ لَكَ شَعْرِی و بَشَرِی وَلَحْمِی وَدَمِی وَعِظامِی وَمُخِّی وَعَصَبِی مِنَ النِّسآءِ وَالثِّیابِ وَالطِّیْبِ اَبْتَغِی بِذلِكَ وَجْهَكَ وَالدّارَ الآخِرَة.

پس احرام کے دو کپڑوں کو واجبات کی بحث کی بحث میں بیان کئے جانے والے طریقے کے مطابق پہنے ۔

6. احرام کا لباس کاٹن کا ہو اور احرام پہنتے وقت کہے :

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِی رَزَقَنِی مٰا اُوارِی بِهِ عَوْرَتِی وَاُؤَدِّی فِیْهِ فَرْضِی وَاَعْبُدُ فِیْهِ رِبِّی وَاَنْتَهِی فِیْهِ اِلی ما اَمَرَنِی، اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِی قَصَدْتُهُ فَبَلَّغَنِی وَاَرَدْتُهُ فَاَعانَنِی وَقَبِلَنِی وَلَمْ یَقْطَعْ بِی وَوَجْهَهُ اَرَدْتُ فَسَلَّمَنِی فَهُوَ حِصْنِی وَكَهْفِی وَحِرْزِی وَظَهْرِی وَمَلاذِی وَمَلْجأِی وَمَنْجای وَذُخْرِی وَعُدَّتِی فِی شِدَّتِی وَرَخائِی.

7. زبان سے احرام کی نیت کرے اور جیسا کہ واجبات احرام میں بھی بیان کیا جائے گا کہ نیت کے ساتھ یہ کہنا واجب ہے :

لَبَّیْكَ اَللّهُمَّ لَبَّیْكَ لَبِّیْكَ لا شَرِیكَ لَكَ لَبَّیْك.

احتیاط واجب کی بناء پر مندرجہ ذیل جملہ بھی کہے :

اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لا شَرِیكَ لَك.

بہتر یہ ہے کہ اس جملے کے بعد ایک مرتبہ پھر لَبَّیْكَ کہے ۔

8. اس کے بعد یہ کہنا مستحب ہے :

«لَبَّیْكَ ذَا الْمَعارِجِ لَبَّیْكَ، لَبَّیْكَ دَاعِیاً إلٰی دارِ السَّلامِ لَبَّیْكَ، لبَّیكَ غَفّارَالذُّنُوبِ لَبَّیْكَ، لَبَّیْكَ أهْلَ التَّلْبِیَةِ لَبَّیْكَ، لَبَّیْكَ ذَاالْجَلالِ وَالإكْرامِ لَبَّیْكَ، لَبَّیْكَ تُبْدِءُ وَالْمَعٰادُ إلَیْكَ لَبَّیْكَ، لَبَّیْكَ تَسْتَغْنی وَیُفْتَقَرُ إلَیْكَ لَبَّیْكَ، لَبَّیْكَ مَرْغُوباً وَمَرْهُوباً إلَیْكَ لَبَّیْكَ، لَبَّیْكَ إلٰهَ الحَقِّ لَبَّیْكَ، لَبَّیْكَ ذَاالنَّعْمَآءِ وَالفَضْلِ الحَسَنِ الجَمِیلِ لَبَّیْكَ، لَبَّیْكَ كَشّافَ الْكُرَبِ العِظامِ لَبَّیْكَ، لَبَّیْكَ عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدَیكَ لَبَّیْكَ، لَبَّیْكَ یَا كَرِیْمُ لَبَّیْكَ».

رجاء استحباب کی بناء پر یہ جملہ بھی کہے :

لَبَّیْكَ اَتَقَرَّبُ اِلَیْكَ بِمُحَمّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ لَبَّیْكَ، لَبَّیْكَ بِعُمْرَة.

اور حج کے احرام میں کہے : لَبَّیْكَ بِحَجَّةٍ ، اور عمرۂ تمتع میں اس کے بعد کہے :

«لَبَّیْكَ، لَبَّیْكَ وَهذِهِ عُمْرَةُ مُتْعَةٍ اِلی الْحَجِّ لَبَّیْكَ، لَبَّیْكَ اَهْلَ التَّلْبِیَةِ لَبَّیْكَ، لَبَّیْكَ تَلْبِیَةً تَمامُها وَبَلاغُها عَلَیْكَ.

9. مرد بلند آوازس سے تَلْبِیَه کہے مگر میقات مدینه میں کہ جہاں بہتر یہ ہے کہ اگر سوار ہے تو آہستہ تَلْبِیَه کہے اور جب ہموار زمین دکھائی دے تو بلند آواز سے تَلْبِیَه کہے ۔ مکہ معظمہ سے حج کے لئے احرام باندھنے والے کے لئے مستحب ہے کہ جب وہ (رقطاء) کے مقام پر پہنچے یا (ابطح) سے مشرف ہو تو بلند آواز سے تَلْبِیَه کہے ۔

10. نیند سے بیدار ہونے کے بعد ، ہر واجب و مستحب نماز کے بعد ، گھر میں پہنچنے کے موقع پر، سواری تک پہنچنے کے وقت ، سوار ہوتے وقت ، اوپر جاتے وقت اور نشیب کی طرف نیچے جاتے وقت بھی تلبیه کہے ، سحر کے وقت زیادہ کہے اگرچہ جنب یا حائض ہی کیون نہ ہو ، اور عمرۂ تمتع میں تَلبِیَه کہنا بند نہ کرے کہ جب تک عمرۂ تمتع میں مکہ کے گھروں کو نہ دیکھے اور حج تمتع میں روز عرفہ کے ظہر تک تَلْبِیَه کہے ۔

مكروهات احرام

مسأله 9. احرام میں دس چیزیں مکروہ ہیں :

1. کالے کپڑے پہننا بلکہ بہتر یہ ہے کہ ہر قسم کے رنگین کپڑے پہننے سے گریز کیا جائے مگر سبز رنگ کے کپڑے پہننا ، جسے بعض معتبر روایات میں  استثناء کیا گیا ہے ۔

2. بستر پر سونا اور زرد رنگ کا سرہانا استعمال کرنا ، اور اسی طرح گندے لباس سے مُحرم ہونا بھی مکروہ ہے ۔ لہذا ضروری ہے کہ احرام کا لباس صاف ستھرا ہو اور بہتر یہ ہے کہ جب تک وہ لباس نجس نہ ہو ، اسے نہ دھوئیں ۔

3. زینت اور آرائش کے قصد کے بغیر حناء (مہندی) لگانا لیکن نزینت کے قصد سے لگانا خلاف احتیاط  ہے ، بلکہ احتیاط یہ ہے کہ مطلقاً حناء  نہ لگائے ۔ حتی احرام سے پہلے بھی نہ لگائے کہ جب اس کا اثر احرام کی حالت تک باقی رہے ۔  نیز عورت کے لئے بھی احرام سے پہلے حناء لگانا مکروہ ہے کہ جب اس کا رنگ احرام کی حالت تک باقی رہے ۔

4. حمام میں جانا اوربدن کو ملنا۔

5. اگر کوئی بلائے تو اس کے جواب میں لبَّیْك کہنا ۔

6. ٹھنڈے پانی سے بدن کو دھونا ۔

7. بہت زیادہ مسواک کرنا اور منہ کو ملنا۔

8. كشتی کرنا اور ہر وہ کام کرنا کہ جس میں زخمی ہونے یا بدن کے بالوں کے گرنے کا خوف ہو ۔

9. شعر پڑھنا ۔

10. ریاحین اور خوشبو دار پھولوں کو استعمال کرنا ۔ اور بہتر ہے کہ سر کو بیری کے پانی اور خطمی سے نہ دھویا جائے ۔

مواقیت احرام

مسأله 10. جس جگہ سے احرام باندھنا واجب ہے ، اسے «میقات» کہا جاتا ہے ۔ اور ہر کوئی مکہ کی راہ میں اسی میقات سے احرام احرام باندھے ۔ اس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں :

1. «مسجد شجره»: یہ اہل مدینہ اور مدینہ منورہ کے راستے مکہ معظمہ سے مشرف ہونے والوں کا میقات ہے ، جیسا کہ ایران کے بہت سے حجاج  اور اسے  «ذوالحلیفه» بھی کہا جاتا ہے ، اور اب یہ «آبار علی» کے نام سے مشہور ہے ۔ بعض کے بقول مکہ تک اس کا فاصلہ 464 كلو میٹر ہے اور مدینہ تک اس کا فاصلہ تقریباً سات کلو میٹر ہے ۔ بہتر بلکہ احوط یہ ہے کہ مسجد کے اندر  احرام باندھا جائے ، جب کہ جنب اور حائض مسجد سے گزرتے ہوئے احرام باندھیں   اور اگر مسجد کے پیچھے سے احرام باندھیں تو بھی صحیح ہے ۔  ضرورت کے وقت شام کے رہنے والوں کے میقات (جحفہ) تک احرام باندھنے میں تأخیر کی جا سکتی ہے  اور پھر «جحفه» کے مقام پر احرام باندھیں ۔

2. «جُحفه» : یہ جحفہ اور اس کے گرد و نواح کے رہنے والوں کا میقات ہے ۔ نیز یہ مصر ، شام ، مغربی شہروں اور یورپ کے لوگوں کا میقات ہے اور اب بعض ایرانی بھی اسی مقام سے احرام باندھتے ہیں اور جو لوگ مکہ جانے کے قصد سے کانال سوئز سے گزرتے ہیں ، انہیں چاہئے کہ وہ دریا میں محاذات جحفه میں احرام باندھیں ۔ مکہ اور ھضفہ کے درمیان تقریباً 220 كلو میٹر کا فاصلہ ہے اور یہ «رابغ» کے نزدیک ہے لیکن رابغ سے احرام باندھنا کافی نہیں ہے ۔

3. «وادی عقیق»، یہ اہل نجد ، عراق اور ہر اس شخص کے لئے میقات ہے کہ جو اس راستے سے حج کے لئے جائے ۔ اور افضل یہ  ہے کہ اگر یقینی طور پر معلوم ہو جائے تو اس کے پہلے حصے (جسے «مسلخ» کہتے ہیں) سے ہی احرام باندھیں ، ورنہ جب وادی عقیق پہنچنے کا یقین ہو جائے تو «ذات عرق» پہنچنے سے پہلے احرام باندھیں ۔ اور اگر تقیہ کی وجہ سے ذات عرق تک احرام باندھنے میں تأخیر تأخیر کرنے پر مجبور ہوں تو اس جگہ پہنچنے سے پہلے جو لباس پہنا ہوا ہے ، اسی میں احرام کی نیت کریں اور آہستہ آواز میں «تلبیه» کہیں ۔ اور اگر ممکن ہو تو اپنے کپڑے اتار کر احرام کے دو کپڑے پہنیں اور پھر احرام کو اتار کر اپنے کپڑے پہن لیں اور اس کے لئے (جیسا کہ بیان کیا جائے گا) فدیہ دیں اور جب ذات عرق کے مقام پر پہنچ جائیں تو وہاں احرام باندھیں ۔

4. «قرن المنازل» : یہ عرفات سے مشرف ایک پہاڑ ہے جو مکہ معظمہ سے 94 كلو میٹر کی دوری پر ہے اور یہ اہل طائف ، اس کے گرد و نواح اور اس راستے سے مکہ مشرف ہونے والوں کا میقات ہے ۔

5. «یلملم» : یہ تهامه کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے اور مکہ مکرمہ سے 94 كلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ اہل یمن اور اس راستے سے حج کے لئے مشرف ہونے والوں کا میقات ہے ۔

محرمات احرام 

مُحرم (احرام باندھنے والا) پر پچیس چیزیں حرام ہیں :

1 ـ صحرائی حیوان (خشکی کا جانور)  کا شکار کرنا ۔

2 ـ بیوی سے جماع اور دوسری تمام لذات ۔

3 ـ عورت سے عقد کرنا ۔

4 ـ عقد کا گواہ بننا ۔

5 ـ استمناء ۔

6 ـ خوشبو سونگھنا اور بدبو سے ناک بند کرنا ۔

7 ـ مرد کے لئے سلائی شدہ کپڑے پہننا ۔

8 ـ سرمه لگانا ۔

9 ـ آئینے میں دیکھنا ۔

10 ـ مرد  کے لئے پاؤں کے بالائی حصے کو ڈانپنا ۔

11 ـ جھوٹ بولنا اور گالی دینا ۔

12 ـ قسم کھانا ۔

13 ـ بدن کے حیوانات (مثلاً جوئیں وغیرہ) کو مارنا ۔

14 ـ زینت کے لئے انگوٹھی پہننا ۔

15 ـ عورت کے لئے زیور پہننا ۔

16 ـ بدن پر تیل ملنا ۔

17 ـ بدن سے بال صاف کرنا ۔

18 ـ مرد کا اپنے سر اور کانوں کا ڈھانپنا ۔

19 ـ عورت کا اپنے چہرے کو ڈھانپنا ۔

20 ـ مرد وں کا سائے میں رہنا۔

21 ـ اپنے بدن سے خون نکالنا ۔

22 ـ ناخن کاٹنا ۔

23 ـ دانت نکلوانا ۔

24 ـ حرم کے درخت کو اکھاڑنا ۔

25 ـ بدن پر جنگی آلات باندھنا ۔

 

 

 

 

 

 

Wednesday / 15 August / 2018