پنجشنبه: 1403/01/9
Printer-friendly versionSend by email
مشہد مقدس میں امام رضا علیہ السلام اور ادیان کی گفتگو کے عنوان سے پہلی بین الاقوامی کانفرنس کے لئے عظیم الشأن شیعہ مرجع حضرت آیة الله العظمی صافی گلپایگانی مدظله‌الوارف کا پیغام

بسم الله الرحمن الرحیم

 

مُطَهَّــرُونَ نَقِیّاتٌ ثِیابُـهُم *** تَجرِی الصَّلاةُ عَلَیهِــم أَینَما ذُکِــروا

فاللهُ لـمَّا بَرا خَـلقـاً فَـأَتقَنَهُ *** صَـفَاکُم و اصـطَفَاکُــم أیُّهَا الــبَشَرُ

فَأنتُمُ المَلَأُ الأَعلی وَ عِندَکُم *** عِلمُ الکِتَابِ وَ مَا جَاءَت بِهِ السُّوَر

 

اس قدسی و مکلوتی محفل میں حاضر تمام مفکرین اور دانشوروں کی خدمت میں مخلصانہ سلام عرض کرتا ہوں ، اور اس شاندار کانفرنس کا انعقاد کرنے والے حضرات کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے آپ بزرگوں کی خدمت میں چند کلمات عرض کرتا  ہوں ۔

البتہ یہ کہنا چاہئے کہ عالم آل محمّد حضرت علی بن موسی الرضا علیه آلاف التحیة و الثّناء کی بے نظیر شخصیت اور بے بدیل فضائل کے بارے میں کون لب کشائی کر سکتا ہے ؟ کن کلمات اور عبارات کے مدد سے حجتِ خدا کے مبارک وجود کے بارے میں کچھ کہا جا سکتا ہے ؟ یہ بزرگ ہستی اعظم آیات اور حجج الٰہی میں سے ہے ۔ بزرگ مصنفین ، دنیائے علم و دانش کے نبغاء اور برجستہ دانشوروں نے آپ کی عظیم شخصیت کے بارے میں قلم فرسائی کی ہے لیکن انہوں نے جو کچھ لکھا اور جو کچھ کہا ، ان سب کے باوجود دانشوروں کے لئے حضرت علی بن موسی الرضا علیہما السلام کے مناقب کے باب میں اب بھی  تألیف و تصنیف اور بلاغت و خطابت کا در کھلا ہوا ہے  اور جو کوئی بھی اس وسیع و عریض باغ میں وارد ہو گا،  وہ تروتازہ پھل پائے گا ۔

«كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُها ثابِتٌ وَ فَرْعُها فِی السَّماءِ تُؤْتِی أُكُلَها كُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّها»

 حجت خدا اور رہبران الٰہی کی سیرت و مکتب کی آشنائی سے بڑھ کر کوئی چیز بھی انسانی سماج اور بالخصوص دینی سماج کے لئے  علمی اورتعمیراتی نہیں ہو سکتی اور اسے ایک بزرگ عالمی علم کے عنوان سے متعارف کروانا چاہئے کہ جو درحقیقت اعلیٰ تعلیمات ، تابناک افکار اور پاک وپاکیزہ کردار و رفتار کی جانب انسان کی رہنمائی کرتا ہے کہ جس نے انسان کی مادی و معنوی حیات کے تمام  پہلؤوں کا احاطہ کیا ہوا ہے ۔
انسانیت کے عظیم پیشواؤں میں سے ایک حضرت علی بن موسی الرضا علیہما السلام ہیں کہ جن کی عظمت نے نہ صرف پورے عالم اسلام اور مشرق و مغرب کو احاطہ کیا ہوا ہے بلکہ اس شخصیت نے دوسرے ادیان کے بزرگوں کے دلوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا ہے ۔ 

یہ وہ شخصیت ہے کہ جسے بزرگوں اور دانشوروں نے مختلف جہات سے مورد توجہ قرار دیا ہے  اور اگر ہم ان کی عظمت کے ہر ایک پہلو کے بارے میں کچھ کہنا چاہئیں تو اس کے لئے کئی گھنٹے اور کئی دن مختص کرنے ہوں گے تا کہ ہم ان کی عظمتوں کے بحر بیکراں سے ایک قطرہ حاصل کر سکیں ۔

حضرت علی بن موسی الرضا علیہما السلام کی عظمت کا ایک پہلو آپ کا ممتاز اور الٰہی علم و دانش ہے ؛  اسی وجہ سے آپ  عالم آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لقب سے ملقب ہیں  ۔ آپ  کے علم و دانش  نے مختلف ادیان اور اسلامی فرقوں کے دانشوروں کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کر دیا ۔

 مفکرین و دانشورانِ محترم :

آپ بطور نمونہ خراسان کی جانب حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام کے سفر کا مطالعہ فرمائیں تو آپ ملاحظہ کریں گے کہ اس سفر کے دوران اس حجتِ خدا نے کس طرح عقائد الٰہی اور معارف وحیانی کی تجدید کی اور اسی وجہ سے آپ کو «مجدّد رأس مأة ثانیه» کہا جاتا ہے ۔

مأمون کا زمانہ مسلمانوں کے لئے فلسفی مکاتب اور اصطلاحات سے آشنائی کے آغاز کا زمانہ تھا ۔ فلسفی کتب کا عربی میں ترجمہ ہوا اور مأموں کی حمایت اور سرپرستہ میں دینی عقائد پر بہت زیادہ شبہات و اشکالات کئے گئے ۔ نیز دوسری طرف سے مسلمانوں اور  دوسرے ادیان کے علماء کے درمیان مناظروں میں بھی وسعت آئی اور  مذہبی مباحث رائج ہوئیں ۔ امام رضا علیہ السلام نے الٰہی و وحیانی معارف کی حفاظت ، مختلف شبہات و اشکالات کے ردّ اور مسلمان علماء کی رہنمائی لئے بہت اہم کردار ادا کیا  اور آپ نے بذات خود مختلف ادیان کے بزرگ دانشوروں سے بحث کی اور انہیں لاجواب کیا ۔ یہ ابحاث اور مناظرے تاریخ و حدیث کی کتابوں میں درج (اور محفوظ ) ہیں  اور آج بھی انہیں احتجاج و استدلال  کے فنّ میں بہت بڑا علمی ذخیرہ شمار کیا جاتا ہے کہ جن سے علماء و دانشور ہمیشہ سے مستفید ہوتے آئے ہیں اور ہوتے رہیں گے ۔

جو لوگ اور دانشور فلسفی مسائل کے بارے میں امام رضا علیہ السلام کے بارے میں جس قسم کا بھی سوال کرتے تھے ، آپ انہیں کافی و شافی جواب دیتے تھے ۔ اہل سنت کے علماء و مشائخ بھی آپ سے بہت عقیدت رکھتے تھے اور آپ کو بزرگ اولیاء میں سے شمار کرتے تھے اور انہوں نے آپ کی مدح و ثناء میں اشعار و قصائد کہے ہیں ۔

جب دوسرے ادیان کے علماء کا حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہما  السلام سے سامنا ہوتا  تو وہ آپ کو الٰہی علوم اور آسمانی معارف کا سرچشمہ پاتے اور آپ کے سامنے اظہارِ خضوع کرتے  ہوئے آپ کی مدح و ثناء اور تمجید کرتے اور جہاں تک ہو سکتا ؛ وہ اپنی تشنگی کو ان بے نظیر معارف سے سیراب کرتے ۔

الغرض یہ کہ حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام کی شخصیت کے بارے میں مختلف سمینار اور کانفرنس کا انعقاد کیا جائے   ۔دنیا کے تعلیمی اداروں میں ان کے معارف  تدریس کئے جائیں اور اس حجت الٰہی کے معارف میں تحقیق کی جائے تا کہ   انسان کو اپنی سعادت و نجات کا راستہ میسر آ جائے ۔

اور آخر میں ؛ میں اس عظیم بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کرنے والوں اور اس میں شرکت کرنے والوں کی قدر دانی کرتا ہوں اور یہ اعتراف کرتا کہ مجھ جیسا حقیر اپنی زبان و قلم سے عالم آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام کے عظیم اور جلیل القدر وجود کے پہلوؤں کو بیان کرنے سے عاجز و قاصر ہے ۔ اور میں خدا کی بارگاہ میں سب کے لئے دعا گو ہوں کہ خداوند متعال ہم سب کو قرآن و اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے نورانی معارف کے حصول کی توفیق عطا فرمائے ۔

والسلام علیکم و رحمة‌الله و برکاته.

٢١ جمادی الاولی ؛ سنہ ١٤٤٠ہجری
              لطف الله صافی

 

 

 

Wednesday / 13 February / 2019