جمعه: 1403/01/10
Printer-friendly versionSend by email
hj
اسرار صلح امام حسن مجتبيٰ عليہ السلام

اسرار صلح امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام

امام حسن علیہ السلام كی صلح ایك الٰہی فریضہ اور شرعی وظیفہ تھی جس كو ان حالات میں امام حسن علیہ السلام نے قبول كیا بہ الفاظ دیگر اس زمانے كے حالات نے امام كو صلح كرنے پر مجبور كیا ،اہلسنت كے یہاں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی ایك صحیح حدیث میں اس بات كی طرف اشارہ موجود ہے۱ كہ پیغمبر(ص) نے اس واقعہ كی خبر دی تھی اور اس میں امام حسن علیہ السلام كی سیادت اور اصلاح طلبی كی جانب بھی اشارہ كیا تھا ۔ 
ایسے حالات میں جب كہ صلح عام لوگوں كے حق میں ہو ،اگر طرفین ہٹ دھرمی سے كام لیں اور كینہ و حسد كا مظاہرہ كریں تو كبھی بھی صلح برقرار نہیں ہو سكتی ہے ، صرف اس صورت میں صلح واقع ہو سكتی ہے جبكہ طرفین حسن نیت ركھتے ہوں یا كسی ایك طرف كی نیت اچھی ہو اور وہ معاشرے كی مصلحت كو مد نظر ركھتا ہو اور اسے ذاتی مصلحت اور فائدے پر ترجیح دے، مد مقابل چاہے جتنا ہٹ دھرمی دكھائے وہ ایثار و فداكاری كا مظاہرہ كرے۔
امام حسن علیہ السلام اور معاویہ كے درمیان ہونے والی جنگ میں یقینا معاویہ ایسا نہ تھا جو مسلمانوں كی مصلحت كے پیش نظر حكومت ، خلافت اور اپنے ناپاك عزائم سے دستبردار ہو جاتا اور خلافت كو اس كے اہل كے سپرد كر دیتا ۔ وہ اپنے ناپاك اہداف تك پہنچنے كے لئے نہ خدا و رسول كو نظر میں لاتا نہ ہی مصلحت اسلام و مسلمین كو خاطر میں لاتا تھا بلكہ ہر چیز كو اپنی ریاست طلبی پر قربان كر دیا كرتا تھا ، اگر اسے اہل بیت علیہم السلام ، ان كے چاہنے والوں یا تمام مسلمانوں كا قتل بھی كرنا پڑتا تو وہ حكومت اور ریاست كی خاطر اس كام سے بھی دریغ نہ كرتا ۔ اگر چہ وہ كبھی كبھی چرب زبانی سے كام لیتا تھا لیكن اگر حكومت كو خطرہ لاحق ہو جاتا تو وہ اس چرب زبانی كو بھی پس پشت ڈال دیتا تھا ۔ 
ایسے حالات میں یقینا جو مسلمانوں كی مصلحت كی رعایت كرسكتا تھا وہ امام حسن علیہ السلام تھے ۔
امام حسن علیہ السلام كی یہ حكمت عملی ،امام كے منصب امامت اور آپ كے سوابق كو نظر میں ركھتے ہوئے ،قابل تعجب نہ تھی ،اگر امام مسلمانوں كی مصلحت كو مد نظر نہ ركھے تو اور كون اس كی رعایت كرے گا ؟ 
كسی بھی صورت معاویہ اور اس كے ماں باپ اور خاندان كے سوابق كو ذہن میں ركھتے ہوئے اس سے یہ توقع نہیں كی جا سكتی تھی كہ وہ مسلمین كے مصالح كی رعایت كرے گا ۔ 
اس كے برخلاف امام حسن علیہ السلام سے اس كے سوا اور كوئی توقع نہیں كی جا سكتی تھی كہ وہ مصلحت مسلمین سے ہٹ كر كسی اور چیز كو نظر میں ركھیں گے ۔ چونكہ آپ آغوش نبوت كے تربیت یافتہ اور بیت وحی كے پروردہ تھے جہاں ملائكہ كا نزول ہوتا ہے اور چار جانب سے آپ كے نانا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كا نور نبوت، آپ كے باپ علی علیہ السلام كا نور امامت اور آپ كی والدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا كا نور عصمت آپ كو اپنے حصار میں لئے ہوئے تھا۔ آپ كا سینہ علوم پیغمبر(ص) كا مخزن تھا ،وحی كے نازل ہونے پر آپ سب سے پہلے ندائے وحی سننے والوں میں سے تھے اور آپ نے الٰہی كلمات كی تعلیم اپنے جد رسول خدا(ص) سے حاصل كی تھی ۔ 
پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ كو سیادت ، سرداری اور امت كی رہبری سے نوازا تھا اور اسلام كی بقا كی خاطر آپ كو اس جانثاری اور فداكاری كے لئے آمادہ كیا تھا اور آپ كے صلح كی بركات ،اہمیت اور عظمت كی قدردانی كی تھی ۔ 
پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے متعدد مقامات پر امام حسن علیہ السلام كی روش كی تائید كی تھی جس طرح آپ كے باپ علی علیہ السلام كی مارقین و قاسطین و ناكثین كے ساتھ جہاد كرنے كی روش كو سراہا تھا اور امام حسین علیہ السلام كے تاریخی قیام اور كربلا میں آپ كی جانثاری او فداكاری كی تائید كی تھی ۔ اسی طرح آپ (ص) نے تمام ائمہ علیھم السلام كے زمانے میں واقع ہونے والے حوادث كی پیشین گوئی كرتے ہوئے ائمہ علیہم السلام كی روش كی تائید كی تھی ۔ 
لہذا یہ بات ثابت ہے كہ ان حالات میں امام حسن علیہ السلام كی صلح آپ كی شرعی تكلیف تھی اور یہ صلح آپ كے والد كے جہاد كی طرح اسلام و مسلمین كے حق میں تھی ۔
۱۔ اس حدیث كو بخاری نے چار جگہ ،ابوداؤد ،نسائی اور ترمذی نے سنن میں اس حدیث كو ذكر كیا ہے كہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ ابْنِى هَذَا سَیِّدٌ یُصْلِحُ اللَّهُ عَلَى یَدَیْهِ فِئَتَیْنِ عَظِیمَتَیْنِ، میرا یہ فرزند سید و سردار ہے ،خداوند اس كے ذریعہ مسلمانوں كے دو عظیم گروہوں میں صلح برقرار كرے گا۔ 
اقتباس از كتاب" رمضان در تاریخ" تالیف حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی

 

Sunday / 17 April / 2022