جمعه: 1403/01/10
Printer-friendly versionSend by email
عيد الفطر كے سلسلہ ميں حضرت آيۃ اللہ العظميٰ صافي دامت بركاتہ كے بيانات

اَسْئَلُكَ بِحَقِّ هذَا الْیَومِ الَّذِی جَعَلتَهُ لِلْمُسْلِمِینَ عِیداً
عید سعید فطر كے دن ساری دنیا كے مسلمان خوشی و مسرت میں غرق رہتے ہیں اور اس بات پر فخر محسوس كرتے ہیں كہ انھوں نے ماہ مبارك رمضان كو خدا كی طاعت و عبادت میں بسر كیا اور اس كی رحمتوں اور بركتوں سے فیض حاصل كیا ۔ 
خدا كا شكر ادا كرتے ہیں كہ اسلام كے ایك عظیم تربیتی درس كو ایك مہینہ میں تمام كیا ہے ۔ اور اس میں جو سبق انھیں دیا گیا ہے اسے اپنی صلاحیت اور استعداد كے مطابق سمجھا ہے اور اسے اپنے دل میں اتارا ہے ۔ 
اس دن مسلمان ایك ایسے میدان جہاد سے كامیاب و سرفراز ہو كر نكلے ہیں جس میں بڑے بڑے پہلوان اور قدآور لوگ خاك چاٹ چكے ہیں ۔ 
اس جہاد كا نام جہاد بالنفس ہے ،جس میں انسان اپنے دل كی خواہشات ، حیوانی غرائز اور نفسانی لذات سے جہاد كرتا ہے ۔ 
نفس كو اس كے شہوانی امور سے روكنا ، لذیذ غذاؤں اور گوارا مشروبات سے پرہیز كرنا ، نگاہوں كو شیطانی ہوا و ہوس اور حرام چیزوں سے بچانا ، جھوٹ ، غیبت ، غصہ ، بد اخلاقی ، تكبر ، جاہ و مقام طلبی اور ہر طرح كے گناہوں سے پرہیز كرنا ہی اس میدان جہاد میں فتح و كامیابی كی علامت ہے ۔ 
یہ سب جہاد ہیں بلكہ جہاد اكبرہیں جیسا كہ پیغمبر اسلام (ص) نے میدان جہاد میں جانے والے اور دشمن كے ساتھ اسلحہ اور تلوار سے جنگ كرنے والے گروہ سے فرمایا:
مَرحَبا بِقَوم قَضُوا الجِهادَ الاَصغَر وَبَقِىَ عَلَیهِمُ الجِهادُ الاَكبرَ

" جہاد اكبر" وہ مرحلہ ہے جس میں با ایمان افراد ، وہ خواتین و حضرات جن كی تربیت اسلام كے دامن میں ہوئی ہے ، ان كے علاوہ كوئی ثابت قدم نہیں رہ سكتا ، نہ ہی وہاں سے كامیاب ہو كر نكل سكتا ہے ۔ 
یہ وہ میدان ہے جہان قوی الجثہ افراد ، مال و مقام كے عاشق ، شہوت پرست ، خونخوار جلاد ، دنیا طلب فاتح ، مغرور جوان ، كینہ توز افراد ، بے رحم ظالم ، نسل كشی كرنے والے جلاد صفت ، بے پروا خواتین ، ناپاك دوشیزائیں اور مادی دنیا میں غرق رہنے والے افراد ہلاكت كی ذلت سے دوچار ہوتے ہیں اور اس میدان میں شركت كرنے سے عاجز و ناتوان ہیں ، انھیں كوئی فخر نصیب نہیں ہوتا ۔ 
اس میدان میں باایمان خواتین اور مرد ، خداپرست افراد ، خاكسار لوگ ، متقی و پرہیزگار ، صبر و زہد ركھنے والے ،دنیا اور مال دنیا سے بے رغبت افراد لباس جنگ پہن كر بلند ہمت او رمستحكم ارادے كے ساتھ میدان میں اترتے ہیں اور اپنے حریف كو شكست دے كر كامیابی كے ساتھ اس میدان سے باہر نكلتے ہیں ۔ 
یقیناً نفسانی خواہشات سے جنگ آسان ہونے كے باوجود دشوار ہے ، آسان ہے چونكہ انسان كی پاك فطرت اور عقل و خرد مصلحتوں كو درك كرتی ہے اور اگر اس میدان میں انسان قدم ركھے تو جتنا آگے بڑھتا جائے گا، كامیابی ملتی جائے گی یہاں تك كہ اپنے سركش نفس كو مغلوب كر كے اپنا فرمانبردار بنا لے گا اور اپنے بدن كی مملكت میں اپنی ملكوتی اور عقلانی طاقت كو حاكم بنا دے گا ۔ 
دوسری طرف یہ كام دشوار بھی ہے چونكہ نفس سے جہاد ، اپنی طرح طرح كی خواہشات كے مقابلے میں قیام كرنا ، انھیں كنٹرول كرنے كی كوشش كرنا ، شیطانی مكر و فریب اور مخفی خواہشات كو پہچاننا ہر انسان كے بس كی بات نہیں ہے ۔ نفس امارہ كر لگام لگانا اور دنیا كی مادی لذتوں سے چشم پوشی ، اپنے سركش نفس كی ہزار قسم كی مختلف خواہشات كو قابو میں كرنا اتنی جلدی ممكن نہیں ہے ۔ بلكہ یہ اندرونی دشمن ان بیرونی طاقتوں سے مدد لیتا ہے جو انسان كے غریزے اور خواہشات كی مددگار ہیں ۔ 
اسی لئے نفس سے جہاد كرنا دشوار كام ہے ، لیكن كامیاب وہی ہے جو اپنے نفس كو اپنے قابو میں ركھے اور اسے صحیح طریقہ سے كام میں لائے ۔ 
ماہ مبارك رمضان جہاد بالنفس كا مہینہ ہے ، اس میں انسان اپنی خواہشات كو كنٹرول كرتا ہے اور اپنے ارادہ كی قوت سے ان پر قابو پاتا ہے ، اور اب یہ موقع ختم ہو گیا اور جشن عید و سرور برپا كرنے كا موقع آگیا ، یہ عید اسلامی عید الفطر ہے ، یہ ایك عمومی عید ہے جو تمام لوگوں كے لئے ہے ۔ 
اَسئَلُكَ بِحَقِّ هذَا الیَومِ الَّذِی جَعَلتَهُ لِلْمُسلِمینَ عیِداً
یہ وہ عید ہے جسے خداوند عالم نے تمام مسلمانوں كے لئے عید اور خوشی كا دن قرار دیا ہے ۔ 
یہ وہ عید ہے جس میں عالمی پیمانے پر مساجد اور اسلامی مقامات پر خدا كی بندگی اورعبادت كا جلوہ نظر آتا ہے ۔ 
اس عید كے رسوم صرف اہل دولت ، حكام ، سرشناختہ شخصیات اور اہل مملكت سے مخصوص نہیں ہیں ۔ 
مادی ڈیكوریشن ، گرانقیمت تحفہ و تحائف كا لین دین ، جیسا كہ اسلام سے پہلے عیدوں میں رواج تھا ، اس عید میں رائج نہیں ہے ۔ 
اس میں رعایا پر حكام كی زیارت كے لئے جانا ضروری نہیں ہے بلكہ مزدور اور ثروت مند ، افسر اور سپاہی ، فقیر اور غنی ، شاہ و گدا سبھی ایك ہی صف میں كھڑے ہو كر خدا كی بندگی ، عبادت اور دعا كیا كرتے ہیں ۔ 
جیسا كہ ہمیں معلوم ہے كہ اس عید كا سب سے اہم ركن " نماز" اور " زكات فطرہ" ہے ۔ 
نماز اور زكات
جیسا كہ بتایا گیا كہ نماز میں ہر طرح كے لوگ شریك ہوتے ہیں جس سے اسلامی برادری اور برابری كا جذبہ آشكار ہوتا ہے ۔ اس عید میں نماز ادا كی جاتی ہے اور قنوت میں دعا پڑھی جاتی ہے اور پھر نماز كے بعد دو خطبہ ہیں جن میں اسلام كا سب سے عظیم درس انسان كو پڑھایا جاتا ہے اور بہت سی ضروری چیزیں انسان كو بتائی جاتی ہیں، اور تمام لوگوں كو یہ دعوت دی جاتی ہے كہ اسلامی مقاصد كی تكمیل ، دینی شعائر كی تعظیم ، علم و حكمت كی ترویج اور امر بالمعروف اور نہی عن المنكر كے لئے مكمل طریقہ سے كوشش كریں ۔ 
جن لوگوں كے پاس سال بھر كا خرچ موجود ہے یا ایسا ذریعہ آمدنی پایا جاتا ہے جس سے سال بھر كا خرچ پورا ہو سكتا ہے ان پر یہ فریضہ عائد كیا گیا ہے كہ وہ زكات ادا كر كے مسلمانوں كی مدد كریں ۔ 
اس عید میں مہنگے اور كمر شكن خرچ و بیہودہ اسراف كی كوئی جگہ نہیں ہے اس لئے بدكردار افراد كی عیاشی اور فضول خرجی اور شہوت رانی اور میگساری كی بھی اس عید میں كوئی گنجائش نہیں ہے ۔ 
یہ عید " كریسمس ڈے" كی طرح نہیں ہے جس میں عیسائی برے كاموں اور فساد و فحشا میں غرق رہتے ہیں اور بیہودہ كاموں ، ناچ گانے ، شباب و شراب اور فسق و فجور میں ملوث رہتے ہیں اور دین اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام كے نام پر لہو لعب ، جوا ، مستی ، شراب ، گانے اور میوزیك كے پروگرام برپا كئے جاتے ہیں جب كہ یقیناً خدا كے پاك پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان چیزوں سے بیزار ہیں ، نہ ہی یہ عید " سیزدہ بدر" اور نوروز كی طرح ہے كہ جس میں كچھ ہی سالوں پہلے تك شراب فروشی ، مجالس لہو و لعب ، شہوت انگیز فیلم اور سینیما كا رواج تھا اور ان ایام میں بدترین جرم و جنایت كی تاریخ رقم كی جاتی ہے یہاں تك كہ اعداد و شمار كے مطابق وہ بچے جن كا نطفہ ان ایام میں منعقد ہوتا تھا وہ ذہنی اور فكری حوالہ سے پسماندگی كا شكار ہوتے تھے ، اسی طرح بہت سے دن ہیں جن كو مقدس نام دیا گیا ہے ، جیسے " مدر ڈے " ، "ٹیچر ڈے" وغیرہ لیكن یہ سب صرف اور صرف دكھاوا ہے اس كا حقیقت سے كوئی تعلق نہیں ہے ، جن كو ایك رسم كے طور پر ادا كیا جاتا ہے جس سے بچكانہ اور نادان جذبات وقتی طور پر ان سے متاثر ہوتے ہیں ۔ 
اس طرح كے ایام كو عید نہیں كہنا چاہئے ، یہ رسومات اغیار كی تقلید اور مغرب كی جھوٹی اور حقیقت سے خالی سوغات پر مشتمل ہیں ، ورنہ اسلام میں ہر دن " مدر ڈے " ہے ۔ ہر دن ماں باپ اور استاد كا احترام واجب اور ضروری ہے ۔ 
اسلامی ماحول جو كہ انسانی مہر و محبت كا سب سے عمدہ نمونہ ہے ، اس میں ماں ، استاد اور بچوں كا احترام ہمیشہ اور ہر روز مورد تاكید قرار دیا گیا ہے ۔ 
جن جگہوں پر سال كے دیگر ایام میں یہ دیكھنے كو ملتا ہے كہ ماں باپ اور استاد كا احترام ختم ہو چكا ہے ان لوگوں نے اس مردہ جذبہ كو زندہ كرنے كے لئے سال میں ایك دن معین كر دیا ہے جس میں ماں باپ یا استاد كو تصنع اور بناوٹی انداز میں یاد كیا جائے ۔ اس لئے ان دنوں كو صرف سالانہ یاد اور نابود شدہ انسانی اقدار كی برسی كے طور پر منایا جاتا ہے ۔ 
وہ قوم جس خود كو اپنے ماں باپ اور استاد كا مرہون منت سمجھتی ہے اور ان كا دین انھیں ان كے حقوق كی ادائگی كا حكم دیتا ہے انھیں اس طرح كی نمایشوں كی ضرورت نہیں ہے ۔ 
ہم مسلمان اسی ماہ رمضان كے ایام میں ماں باپ وغیرہ كے حقوق كے حوالے سے كتنے سبق سیكھتے ہیں ، دعاؤں میں بارہا ماں كی زحمتوں كو یاد كیا جاتا ہے اور اس كی خدمات كو ذہن نشین كرایا جاتا ہے ۔ 
زندہ باد اسلام! جس نے تربیت اور معاشرے كی روحانی صلاح و فلاح كو سرمشق عمل قرار دیا ہے اور ہر موقع پر انسان كے قوت فكر اور قوت ارادہ كو مضبوط بنانے كے لئے انتظام كیا ہے ۔ 
یہ عید فطر بھی ان تمام باارزش اور عالی مفاہیم كی یادآوری ہے جو انسان كو ہر نیك عمل كی ہدایت كرتے ہیں ۔ 
 اَن تُدخِلَنِی فِی كُلِّ خَیر اَدخَلتَ فِیهِ مُحَمَّداً وآلَ مُحَمَّد،
وَاَن تُخرِجَنِی مِن كُلِّ سُوء اَخرَجتَ مِنهُ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّد
یہ عید خدایی عید ہے ، یہ دعا و نماز ، بندگان خدا كے ساتھ اچھا برتاؤ اور برادران اسلامی سے ملاقات كا بہترین موقع ہے ۔ 
چودہ صدیوں سے یہ عید منائی جا رہی ہے ، لیكن آج تك یہ سننے كو نہیں ملا كہ كسی نے اس عید كے وسائل مہیا نہ ہونے كی وجہ سے خودكشی كر لی ہے ، یا زن و شوہر نے اس بات كو لے كر عدالت میں مقدمہ دائر كیا ہے ۔ 
یہ وہ عید ہے جس میں بیجا تفریح كے بجائے لوگ مسجد اور بیت الصلاۃ كی طرف جاتے ہیں ۔ خداوند عالم نے اس عید كو پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے لئے خیر كا ذخیرہ ، شرف اور كرامت كی نشانی اور اسلامی اقدار كی عظمت و بلندی كا ذریعہ قرار دیا ہے ۔ 
________________________________________
منبع : ماہ مبارك رمضان ؛ مكتب عالی تربیت و اخلاق ، تالیف حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی

Wednesday / 12 May / 2021