جمعه: 1403/01/31
Printer-friendly versionSend by email
ماہ رمضان میں دعاؤں کا خزانہ
ماه مبارک رمضان  کے متعلق آیت‌الله العظمی صافی گلپایگانی مدظله الوارف  کے سلسلہ وار نوشتہ جات /10)

بسم الله الرحمن الرحیم

ماہ رمضان میں روزہ داروں کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک دعا و مناجات اور خدائے قاضی الحاجات سے حاجات طلب کرنا ہے۔

دعا، نا امیدی سے نجات

خدا سے ہر وقت دعا کرنا،اسے پکارنا اور اس سے خیر طلب کرنا مستحب ہے اور یہ نفسیاتی لحاظ سے توان بخش، دل کے لئے باعث فرحت و نشاط اور فکری و روحانی قوت کی تجدید کا باعث ہے۔

«دعا»، روح کی مقوی غذا ہے جو غم و اندوہ کو برطرف کرنے، پریشانیوں کو ختم کرنے، مستقبل کے سلسلہ میں امید بخش  اور ناامیدی سے نجات کا سبب ہے۔

دعا؛یعنی پروردگار کو پکارنا،اس سے مدد طلب کرنا اور خدا سے حاجتیں طلب کرنا ہے۔انسان فطری طور پر اس عظیم نعمت اور خدا کی وسیع رحمت سے بہرہ مند ہے۔

انسان کا لایزال قدرت کی پناہ میں آنا

انسان جس قدر بھی قوی اور طاقتور بن جائے لیکن اس کے باوجود مشکلات اور سختیوں میں خدا کے وجود کی طرف رجوع کرتا ہے، اسی سے پناہ طلب کرتا ہے، اور مشکلات،پریشانیوں اور سختیوں سے نجات کے لئے اسی کو پکارتا ہے کیونکہ وہ سب سے برتر، سب سے بے نیاز اور سب کا کارساز ہے۔ انسانی فطرت ہی خدا کی طرف انسان کی ہدایت کرتی ہے کہ خدا کے سوا کوئی اور کار ساز اور چارہ گر نہیں ہے: «قُلْ اَرَءَیْتَكُمْ اِنْ اَتاكُمْ عَذابُ اللهِ اَوْ اَتَتْكُمُ السّاعَةُ اَغَیْرَاللهِ تَدْعُونَ اِن كُنْتُمْ صادِقِینَ بَلْ اِیَّاهُ تَدْعُونَ»(1)

اگر افتی به دام ابتلایی                 به جز او از كه میجویی رهایی(2)

انسان زندگی کے اتار چڑھاؤ، حیات کے مختلف حادثات  اور دشوار و ناگوار حالات میں کبھی اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ جہاں اسے اپنے لئے دعا کے علاوہ کوئی سہارا دکھائی نہیں دیتا اورجہاں صرف دعا ہی اس  کے ضعف اور روحانی ناتوانی کی تلافی کر سکتی ہے۔

عقدہ کشائی ؛ انسان کی ایک اہم ضرورت

ہر بیمار اور پریشان حال شخص کو جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ،ان میں سے ایک «دعا» ہے۔ ہر بیمار اور پریشان شخص کو کسی دوست کی بھی ضرورت ہوتی کہ جس سے وہ اپنا درد دل بیان کر سکے اور اسے اپنی پریشانیوں سے آگاہ کرے ،اسے اپنی مشکلات بتائے  اور  اس وقت اس کے دل میں جو بات آئے وہ اس کے سامنے بیان کرے۔ دوسرے لفظوں میں یہی ’’عقدہ کشائی‘‘ ہے یعنی کسی سے اپنا درد دل بیان کرنا ۔

دعا کے فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ مؤمن خدائے مہربان و سمیع سے اپنے راز، درد دل، رنج و مصائب اور اپنی افسردگی بیان کرتا ہے اور بغیر کچھ چھپائے اپنی سب پریشانیاں خدا سے کہہ دیتا ہے، اور اس سے چارہ جوئی کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خدا کسی کی دوسرے شخص کی بنسبت اس سے زیادہ نزدیک ہے اور وہ اس کے آہ و نالہ کو سنتا ہے اور اسے جواب دیتا ہے۔

دعا کرنے کے بعد بندۂ مؤمن یہ محسوس کرتا ہے کہ  اس کے اندرونی درد کم ہو گئے ہیں، اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہے ۔

حقیقت میں اگر دعا نہ ہوتی ، یا  اگر دعا تک بندوں کی رسائی نہ ہوتی تو وہ کسی سے اپنا درد دل، اپنی مشکلات اور پریشانیاں بیان نہیں کر سکتے تھے۔ ان حالات میں زندگی کتنی تلخ اور ناگوار ہو جاتی اور انسان کی یہی کیفیت اسے اذیت دیتی۔

نعمت دعا کا شکر کرنا لازم ہے

ہمیں «دعا» جیسی نعمت کی وجہ سے خدا کا شکر کرنا چاہئے اور اس نعمت کی قدر کرنی چاہئے۔

دعائے «ابو حمزه» میں ذکر ہوا ہے: «اَلْحَمْدُ للهِ الَّذِی اَدعُوهُ فَیُجِیبُنِی وَاِن كُنتُ بَطِیئاً حِینَ یَدعُونِی؛ حمد و ثناء اس خدا کے لئے ہے کہ میں اسے پکارتا ہوں ؛ پس وہ مجھے جواب دیتا ہے ، اگرچہ میں اس کے جواب کے وقت (جب وہ مجھے پکارتا ہے) سستی کرتا ہوں۔»

اور ہم اسی دعا میں پڑھتے ہیں : «اَلْحَمدُ للهِ الَّذِی اَسْئَلُهُ فَیُعْطِیَنِی وَاِنْ كُنتُ بَخِیلا حِینُ یَسَتَقْرِضُنِی؛ حمد وثناء اس خدا کے لئے ہے کہ میں اس سے مانگتا ہوں ، پس وہ عطا کرتا ہے ؛ اگرچہ جب وہ مجھے سے قرض مانگتا ہے تو میں بخل اور کنجوسی سے کام لیتا ہوں۔»(3)

اس خوبصورت دعا کے دوسرے جملوں میں پڑھتے ہیں : «اَلْحَمدُ للهِ الَّذِی اُنادِیهِ كُلَّما شِئتُ لِحاجَتِی وَاَخلُو بِه حَیثُ شِئتُ لِسِرِّی بِغَیرِ شَفِیع فَیَقضِی لِی حاجَتی؛ حمد و ثناء اس خدا کے لئے ہے کہ میں جب بھی چاہوں اسے اپنی حاجت کے لئے پکارتا ہوں اور کسی شفیع کے بغیر  اس سے راز و نیاز کے لئے خلوت کرتا ہوں ۔ پس وہ میری حاجت کو پورا کر دیتا ہے.»

جی ہاں! دعا ہمت کو بلند اور ارادہ کو محکم و استوار کرنے کا باعث ہے اور یہ بڑے حادثات اور مصائب و مشکلات میں انسان کو پائیدار بنا دیتی ہے۔

دعا؛ تذکیہ و تہذیب نفس، خدا کے سامنے دعا کرنے والے کے فقر اورضرورت کو بیان کرنے، تواضع و فروتنی جیسی صفات کے راسخ ہونے اور غرور و تکبر سے نجات کا ذریعہ ہے۔

دعا اور اس کے آثار و برکات اور اس کی شرائط و آداب کے بارے میں ہم یہاں حق سخن ادا نہیں کر سکتے اور اس کے علاوہ یہ میرے جیسے ناتوان اور ضعیف انسان کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔

«دعا کی فضیلت» کے بارے میں روایات میں سے ایک یہ روایت ہے: «الدُّعاءُ مخُّ العِبادة؛دعا حقیقت بندگی و عبادت ہے.»(4)

نیز دیگر حدیث میں وارد ہوا ہے: «اَلدُّعاءُ سلاحُ المُؤمِنِ وَعَمُودُ الدِّینِ وَنُورُ السَّماواتِ وَالاَرْضِ؛ دعا مؤمن کا اسلحہ،دین کا ستون اور آسمان و زمین کو نور ہے.»(5)

ماه رمضان،دعا کی بہار

یہ واضح ہے کہ ماہ رمضان دعاؤں کی بہار اور دعاؤں کا موسم ہے۔اس مہینہ میں ناامید، شکست خوردہ،پریشان حال،مضطر، بے حال، بے صبر اور تکلیف میں مبتلا افراد دعا کی برکت اور خدا کی وسیع رحمت کی جانب توجہ کرتے ہوئے امیدوار، بردبار، خوشحال  اور بانشاط ہو جاتے ہیں اور ایک نئے عزم  و ارادہ کے ساتھ زندگی کے میدان میں قدم رکھتے ہیں اور حیات کے امور انجام دینے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔

ماہ مبارک رمضان یہ نوید سناتا ہے کہ اس دنیا کی کش مکش، مشکلات اور پریشانیوں کے مقابلہ میں شکست نہ کھائیں اور دنیا کے حادثات سے گھبرا کر مغلوب نہ ہو جائیں۔

دعائے ابو حمزہ، دعائے افتتاح اور دوسری دعاؤں کی قرائت انسان کو اس قدر پرجوش اور معنویت سے سرشار کر دیتی ہیں کہ انسان دنیا کے تمام مصائب بھول جاتا ہے اور اس کا وجود روشن مستقل کی امید میں غرق ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ ایسی دعائیں (جو ماہ رمضان میں وارد ہوئی ہیں ،دوسری مناسبات اور دوسرے مہینوں میں بھی ان کے  بہت زیادہ نمونے ہیں) مؤمن کی سلاح اور مؤمن کی ڈھال ہیں جو اس کے وجود کو حادثات سے بچاتیں ہیں اور اس کی روح کو غیر قابل نفوذ قرار دیتی ہیں۔

پوری دعائے ابو حمزہ حقیقی اخلاق کے لئے اسلحہ ہے جو رضا و تسلیم، قناعت ، توکّل، خدا و پیغمبر اور اولیاء دین کی محبت سے سرشار ہے۔ وہی  دعا ایسا اسلحہ اور  ڈھال ہے کہ جس کے ذریعے مجاہدین اسلام خدا کے دشمنوں کے خلاف جہاد کے لئے جاتے اور مختلف قسم کے اسلحوں سے لیس دشمن کو شکست  دیتے ہیں اور جس کے ذریعے اسلام کو کفر پر غلبہ دیتے ہیں۔

محترم قارئین اور عزیز روزہ دارو! اس مہینہ کی دعاؤں سے مستفید ہوں ۔  وقت کو غنیمت شمار کریں ۔ فرصت کو ضائع نہ کریں کیونکہ: «الفرصة تمرّ مرّ السّحاب»(6) خدا سے گفتگو کریں، راز و نیاز کریں ، اس کی مدح و ثناء کریں کیونکہ وہی مدح و ثناء کے لائق ہے۔ دعا سے رو گردانی نہ کریں اور تکبر کا اظہار نہ کریں که خداوند تبارک و تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے: «اِنَّ الَّذِینَ یَستَكبِرُونَ عَن عِبادَتِی سَیَدخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِین»(7)

 

حوالہ جات:

[1]. سوره انعام، آیه 40 اور 41؛ «آپ ان سے کہے کہ اگر تمہارے پاس عذاب یا قیامت آ جائے تو کیا تم اپنے دعوی کی صداقت میں غیر خدا کو بلاؤ گے؟نہیں تم خدا کو ہی پکارو گے اور وہی اگر چاہے گا تو اس مصیبت کو رفع کر سکتا ہے اور تم اپنے مشرکانہ خداو۷ں کو بھول جاؤ گے.

2. مرحوم آیتالله والد قدّس سرّه مؤلف ’’گنج دانش‘‘ کے کلام سے مأخوذ.

3. اس آیۂ کریمہ کی طرف اشارہ: (مَن ذَاالَّذِی یُقْرِضُ اللهَ قَرضاً حَسَناً).

4. حدیث نبوی; بحارالانوار، ج 93، ص 300.

5. كافی، ج 2، ص 468.

6.فرصت بادلوں کی طرح گذر جاتی ہے۔

7. سوره غافر، آیه 60؛ اور یقیناً جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے.

Sunday / 3 April / 2022