پنجشنبه: 1403/01/30
Printer-friendly versionSend by email
انسانی حقوق کی سب سے معتبر قرارداد
رمضان المبارک کی مناسبت سے مرجع عالیقدر آیت‌الله العظمی صافی گلپایگانی قدس سرہ کے سلسلہ وار نوشہ جات سے اقتباس

حضرت علی علیه السلام کی شخصیت کے متعلق لاکھوں کتابیں لکھی گئیں ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روز بروز اس بے نظیر وجود کی عظمت و وسعت مزید آشکار ہو رہی ہے ، اور یوں  آپ کی حیات طیبہ اور آپ کے فضائل کا مطالعہ کرنے والوں کو یہ محسوس ہوتا ہے ک؛ جیسے یہ آپ کے  تازہ فضائل ہیں اور وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ  دوسرے افراد ان فضائل کو نہیں جانتے اور یہ ان پر آشکار نہیں ہیں ۔ان ایام کی مناسبت سے فضائل امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے بحر بیکراں میں سے ایک ناچیز قطرہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جو کتاب نہج البلاغہ کا ایک حصہ ہے:

*انسانیت کے افتخار کی سند

اسلامی سماج اور بالخصوص شیعت کے افتخارات کے اسناد میں سے ایک سند امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا مالک اشتر علیہ الرحمہ کو لکھا گیا وہ عہد نامہ ہے جو تقریباً چودہ سو سال گذرنے کے باوجود بھی انسانی حقوق کا معتبر اعلامیہ ہے۔اس عہد نامے کے ہر جملے اور عبارت میں حکومت و مملکت کے مختلف پہلوؤں،سماج کے حقوق پر توجہ کے متعلق اعجاز آمیز اور بہترین مطالب کا بیان ہے۔

ماضی اور حال میں عظیم حکماءاور دانشوروں نے اس عہدنامہ کا تجزیہ کیا  اور اس کی متعدد شرح بیاں کیں منجملہ شرح «توفیق الفكیكی» کہ جو «الرّاعی والرّعیّه» کے نام سے ہے۔

 * کتاب ’’الإمام علی صوت العدالة الانسانیة‘‘

میں حسب معمول ایک دن استاد بزرگ آیت الله العظمی جناب آقا بروجردی قدّس سرّه کی خدمت میں مشرّف ہوا ، جب کہ میں علم کے اس سرچشمہ سے استفادہ کرتا تھا۔استاد بزرگوار نے مجھے ایک خط دیا کہ جو اسی دن آپ کو موصول ہوا تھا۔میں نے وہ خط لیا اور اس کا مطالعہ کیا۔مجھے اس خط کے جو نکات یاد ہیں ، بطور خلاصہ اس مضمون میں پیش خدمت ہیں:

 * جرج جرداق  کا استاد محترم کو کتاب ہدیہ کرنا

ایک عیسائی شخص،مصنف اور لبنانی استاد «جورج جرداق» نے آیت الله کی خدمت میں یوں  لکھا تھا:میں نے امام علی علیه السّلام کی تاریخ زندگی کا بہت مطالعہ کیا  اور یہ حقیقت دریافت کی کہ آج کی متمدن دنیا میں قبول کئے جانے والے تمام اصول ؛ جن پر ہر قوم و ملت کا اتفاق ہے اور جو انسانی زندگی کی ترقی کی بنیاد تصور کئے جاتے ہیں وہ سب اصول و قوانین امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی زندگی،احکام اور آپ کی راہ و روش سے استفادہ کئے گئے ہیں۔لیکن علمائے اسلام نے ان اصول کی اس طرح سے تشریح نہیں کی جس طرح کرنی چاہئے تھی(البتہ یہ ان کا اپنانظریہ تھا)۔مغربی علماء نے بھی اس بات کو چھپایا ہے کیونکہ وہ یہ قبول نہیں کرنا چاہتے تھے کہ مشرق کی ایک شخصیت ان تمام اصول کی مظہر و مبیّن ہے ۔اور میں نے  یہ ضروری نہیں سمجھا کہ ایسی شخصیت مشرق میں ہو اور اس کی شأن و منزلت اور اس کا حق مجہول رہے ،لہذا میں نے یہ کتاب لکھی اور چونکہ میں عیسائی ہوں اس لئے کوئی مجھ پر تعصب کی تہمت نہیں لگا سکتا۔

نیز انہوں نے لکھا کہ میں نے آپ کو سب سے زیادہ شائستہ شخصیت پایا کہ میں آپ کو یہ کتاب ہدیہ کروں لہذا میں آپ کو یہ کتاب ہدیہ کرتا ہوں اور آپ مطالعہ کرنے کے بعد تصدیق کریں کہ: اِنّی اَنْصَفْتُ الْاِمامَ بَعْضَ الاِنْصافِ.

مرحوم استاد اس کتاب کے منتظر تھے جو اب تک موصول نہیں ہوئی تھی ۔عرض کیا کہ ان‌شاء الله تعالی کتاب موصول ہو جائے گی یہ مطالب کے لحاظ سے اس خط میں بھی کچھ اعترافات تھے جو اہم سند ہیں۔

کچھ مدت کے بعد وہ کتاب موصول ہو گئی جس کا نام تھا«اَلامام علیّ صَوتُ الْعدالَةِ الانسانِیَّه» ،جو ایک جلد میں چھپی تھی اور بعد میں وہ موجودہ صورت میں کئی جلدوں میں شائع ہوئی۔

حضرت آیت الله کو کچھ فرصت ملی تو آپ نے اس کتاب کا مطالعہ کیااور مجھے بھی یہ حکم فرمایا کہ میں شروع سے آخر تک اس کتاب کا مطالعہ کروں اور جہاں بھی کوئی اشتباہ دیکھوں اسے لکھ لوں۔

میں نے استاد کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس کتاب کا مطالعہ کیا اور موارد لکھ کر استاد کی خدمت میں پیش کئے۔

* انسانی حقوق کے اعلانیہ کا مالک اشتر کے عہد نامہ سے موازنہ

میں نے اس کتاب میں جو بہترین مطالب پڑھے ان میں سے ایک مالک اشتر کا عہد نامہ اور اس کا انسانی حقوق کے اعلامیہ سے موازنہ تھا۔

اس عیسائی دانشور نے انسانی حقوق کے اعلامیہ کو لکھا  اور اس کی ہر شق کے مقابل میں عہد نامہ کا ایک جملہ لکھا اور کہا:یہ انسانی حقوق کا اعلامیہ ہے  اور یہ امیر المؤمنین کا مالک اشتر کے لئے عہد نامہ ہے۔ہم دونوں کو ملاحظہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ تمام موارد میں عہد نامہ کے جملات کامل تر اور رسا تر ہیں؛اور دونوں میں یہ فرق ہے کہ:

۱ ۔ انسانی حقوق کا اعلامیّه اس زمانے میں لکھا گیا کہ جسے آج کی اصطلاح میں ترقی یافتہ زمانہ کہا جاتا ہے اور کئی مرتبہ تکمیل کرنے کے بعد وہ موجودہ صورت میں تشکیل دیا گیا لیکن علی علیہ السلام نے یہ عہد نامہ تیرہ صدیاں پہلے لکھا کہ جب یہ حقوق مطرح نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی ان کی جانب کوئی توجہ کی جاتی تھی ۔

۲ ۔ انسانی حقوق کی اس قرارداد و اعلامیہ اور اس کے مضمون ،الفاظ اور اس کے متن کے متعلق مختلف ممالک کے علمائے حقوق اور دانشوروں نے اپنے اپنے نظریات پیش کئے  اور پھر ان کا تجزیہ و تحلیل کیا گیا  اور اخبارات کے ذریعہ عام لوگوں کے افکار تک پہنچایا  اور پھر مل کر ایک دوسرے کی مدد سے اسے لکھا گیا۔ لیکن امام علی علیہ السلام نے مالک اشتر کو مصر کی حکومت کے لئے معین فرمایا تو آپ نے ذاتی و انفرادی طور پر کسی سے مشورہ کئے بغیر یہ عہد نامہ لکھا۔

 ۳ ۔ انسانی حقوق کی تنظیم نے جب یہ اعلامیہ لکھا تو گویا انہوں نے دنیا والوں پر اور بالخصوص ضعیف و کمزور، پسماندہ ،استعمار زدہ  اور محروم اقوام و ملل پر احسان کیا اور وہ اس بات پر فخر کرتے تھے لیکن جب امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام نے یہ عہد نامہ لکھا تو کسی پر احسان نہیں جتلایا بلکہ آپ اسے اپنی ذمہ داری کی ادائیگی سمجھتے تھے۔

۴ ۔ انسانی حقوق کا اعلامیہ پیش کرنے والے خود کو اس کے بانی سمجھتے ہیں لیکن وہ خود ہی اس کے احترام کے قائل نہیں ہیں۔اور جب کسی چیز سے ان کافائدہ و منافع وابستہ ہو تو وہ اس کی مختلف شقوں کو پامال کرتے ہوئے اس پر عمل نہیں کرتے۔

لیکن تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ امام علی علیہ السلام خود سب سے پہلے اس عہد نامہ پر عمل پیرا ہوئے اور آپ نے کبھی بھی اس کی خلاف ورزی نہیں کی ۔امیرالؤمنین علی علیہ السلام کے متعلق جس قدر بھی گفتگو کی جائے لیکن پھر بھی وہ انتہا تک نہیں پہنچ سکتا۔ سلام الله و صلواته علیه.

Thursday / 21 April / 2022