جمعه: 1403/01/10
Printer-friendly versionSend by email
غزوه بدر کے درس اور عبرت
رمضان المبارک کی مناسبت سے مرجع عالیقدر آیت‌الله العظمی صافی گلپایگانی مدظله‌الوارف کے سلسلہ وار نوشہ جات (۱۷)

 

سترہ یا انیس ماه رمضان المبارک سنہ دو ہجری کو غزوه بدر ہوا ۔ (۱)

  • بدر اور مسلمانوں کی کامیابی

توحید کے پرچم کے زیر سایہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سربراہی میں  اسلام اور مسلمانوں کو جنگ بدر میں نصیب ہونے والی کامیابی تاریخ اسلام کی بہت ہی اہم ، باعظمت اور قابل ذکر فتوحات میں سے ہے ۔ یہ غزوہ سپاہ اسلام کی سپاہ کفر اور اہل توحید کو اہل شرک کے مقابلے میں  پہلی جنگ تھی ۔

اس جنگ میں مشرکوں کو سازوسامان ، اسلحہ اور آلات حرب کے معاملے میں مسلمانوں پر برتری حاصل تھی اور ان کی تعداد بھی سپاہ اسلام سے تقریباً تین گنا زیادہ تھی ۔

اس جنگ میں اسلامی فوج کی فتح اسلام کے مستقبل کے لئے خاص اہمیت کی حامل تھی اور ظاہری طور پر یہ تاریخ اسلام کی راہ کے تعین کے لئے  بہت زیادہ مؤثر تھی ۔

یہ جنگ دین توحید اور اسلام کے عالمی آئین کے لئے بنیادی و حیاتی اہمیت کی حامل تھی ، اور اس جنگ میں مسلمان کو نصیب ہونے والی فتح مستقبل کی تمام فتوحات کی اساس اور بنیاد بنی ، اور اس کی اہمیت اس قدر زیادہ تھی کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے  اور خداوند متعال کی بارگاہ میں عرض کی :

«اللّهُمَّ هذِهِ قُرَیشُ قَدْ أَقْبَلَتْ بِخُیلائِها وَ فَخْرِها تُحادُكَ وَ تُکَذِّبُ رَسُولَكَ اللّهُمَّ فَنَصْرَكَ الَّذی وَعَدْتَنی اللّهُمَّ أَحْسِنْهُمُ الْغَداةَ؛ خدایا ! یہ قریش کا  قبیلہ ہے ؛ جو اپنے تمام تر تکبر اور غرور کے ساتھ تیرے خلاف  جنگ کے لئے اٹھ کھڑا ہوا ، اور وہ تیرے نبی کو جھٹلاتے ہیں ۔ خدایا ! مجھے وہ نصرت اور فتح عطا فرما جس کا  تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے ، صبح کے خدا ، اور انہیں اپنی نیکی عطا فرما » ۔ (۲)

ایک اور حدیث میں وارد ہوا ہے کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مشرکوں کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت کو دیکھا تو آپ نے قبلہ رخ ہو کر خدا کی بارگاہ میں عرض کی :

«أَللّهُمَّ أَنْجِزْلی ما وَعَدْتَنی أَللّهُمَّ إِنْ تُهْلَكُ هذِهِ الْعِصابَةُ لاتُعْبَدُ فِی الْاَرْضِ؛ خدایا ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا ؛ اسے انجام دے ، کیونکہ اگر یہ گروہ ختم ہو جائے تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت و بندگی نہیں ہو گی ۔» (۳)

اور دعا کے لئے ہاتھ اس قدر بلند کئے  کہ آپ کے دوش مبارک سے آپ کی ردا گر گئی ۔ 

  • جنگ بدر کا علمدار اور مثالی قہرمان

جنگ بدر میں رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم کے علمدار حضرت علی علیہ السلام تھے ۔ (۴)

ابن سعد نے کتاب ’’الطبقات الکبرى‘‘ میں قتاده سے روایت نقل کی ہے کہ : جنگ بدر کے دن اور دوسری ہر جنگ میں رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم کے صاحب لِواء اور علمدار حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام تھے ۔ (۵)

طبری نے اپنی ’’تاریخِ‘‘ میں نقل کیا ہے کہ رسول خدا  صلی الله علیه و آله و سلم کے صاحبِ لواء  اور علمدار علی بن ابی طالب  علیہ السلام تھے ، جب کہ انصار کا صاحب رایتِ (صاحب پرچم) سَعْدِ بْنِ عُباده تھا ۔ (۶)

اس غزہ اور دوسرے غزوات میں واحد قہرمان ، یگانہ مجاہد اور فداکار  امیر المؤمنین علی علیه السلام تھے ۔ اگرچہ اب تک آپ کا سن مبارک بیس سال تک بھی نہیں پہنچا تھا  اور  آپ نے اس غزوہ سے پہلے کسی جنگ میں شرکت نہیں کی تھی ، لیکن آپ نے شجاعت و بہادری کے وہ جوہر دکھائے جو تجربہ کار جنگجوؤں اور میدان جنگ میں بوڑھے ہو جانے والوں نے بھی کبھی نہیں دکھائے تھے ۔ اس میدان جہاد میں مجاہدین اسلام کے ہاتھوں جو مشرکین قتل ہوئے ، ان میں سے دوگنی تعداد میں مشرکین امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام کے ہاتھوں مارے گئے ۔ ’’ الإرشاد‘‘ کی روایت کے مطابق متفقہ اقوال کی رو سے مشرکوں کے چھتیس  مشہور افراد امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ہاتھوں مارے گئے  ، یہ تعداد ان افراد  کے علاوہ ہے جن کے بارے میں یہ اختلاف ہے کہ ان کا قاتل کون ہے ، نیز اس تعداد میں وہ افراد بھی شامل نہیں ہیں جن کے قتل میں آپ دوسروں کے ساتھ شریک ہوئے تھے ۔  (۷)

اس غزوہ میں یہ آیت «هذانِ خَصْمانِ اخْتَصَمُوا فی رَبِّهِمْ؛ یہ دونوں [گروه]  (یعنی مؤمن و کافر)ایک دوسرے کے باہمی دشمن ہیں جنہوں نے پروردگار کے بارے میں آپس میں اختلاف کیا ہے»۔ امیر المؤمنین حضرت علی علیه السلام کی وَلید بن عُتْبه اور حضرت حمزه علیہ السلام کی عُتْبه اور عبیدة بن حارث بن عبدالمطلب کے ساتھ جنگ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ (۸)

معاویہ کہتا ہے : « میں نے اس جنگ میں علی کو شیر کی طرح دیکھا ، کوئی بھی شخص لڑائی میں ان کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا تھا ، مگر یہ کہ  وہ اسے قتل کر دیتے تھے ۔ اور وہ  اسے کسی چیز پر نہیں مارتے تھے لیکن اسے پھاڑ دیتے تھے ۔ (۹)

اسی غزوه میں آسمانی آواز سنی گئی تھی : «لا سَیفَ إِلّا ذو الْفَقارِ وَلافَتی إِلّا عَلِی»(۱۰)

غزوۂ بدر میں ہی جبرئیل، میكائیل اور اسرافیل میں سے ہر ایک نے فرشتوں کے ایک گروہ کے ساتھ علی علیہ السلام کا احترام کیا اور آپ کی خدمت میں سلام پیش کیا کہ جب آپ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے اصحاب کے لئے پانی لینے کے لئے گئے تھے ۔ (۱۱)

سید حمیری نے ان اشعار میں اس فضیلت کی طرف اشارہ کیا ہے :

اُقْسِمُ بِاللهِ وَآلائِهِ
وَالْمَرءُ عَمّا قالَ مسْؤُولٌ
إِنَّ عَلِی بْنَ أَبی طالِبٍ
عَلَی التُّقی والبِرُّ مَجْبُولٌ

«میں خدا اور اس کی نعمتوں کی قسم کھاتا ہوں کہ ہر کوئی اپنے قول کا جوابدہ ہے ، بیشک علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی طینت تقویٰ ، اور نیکی پر رکھی گئی ہے » ۔

وہ خدا اور اس کی نعمتوں کی قسم کھاتے ہیں کہ ہر کوئی اپنے قول کا جوابدہ ہے ، اور بیشک علی بن ابی طالب کی طینت تقویٰ ، اور نیکی پر رکھی گئی ہے  ۔ یہاں تک کہ وہ کہتے ہیں :

ذاكَ الَّذی سَلَّمَ فی لَیلَةٍ
عَلَیهِ میكالُ وَجبْریلُ
میكالُ فی أَلْفٍ وَجَبْریلُ فی
أَلْفٍ وَیتْلُوهُمُ سرافیلُ

« اور یہ وہ ہیں ؛ جن پر ایک ہی رات میں میكائیل و جبرئیل نے درود بھیجا ؛میكائیل ہزار فرشتوں اور جبرئیل بھی ہزار فرشتوں کے ساتھ آئے اور اسرافیل بھی ان کے پیچھے پیچھے آئے » ۔ (۱۲)

  • غزوهٔ بدر کے درس

۱- صرف دلیل و برہان کی طاقت ، علمی وضاحت اور ضمیر و قلب میں بادشاہ حق کا غلبہ ؛ حق کی مطلق حکمرانی اور باطل کے مٹ جانے کے بغیر  ممکن نہیں ہے کہ جب تک عالم  خارج اور معاشرے کے ظواہر پر اس کا تسلط نہ ہو جائے ۔  اور محض یہ ماننا کہ ایک چیز حق ہے اور دوسری باطل ہے ؛  یہ لوگوں کی دنیا اور سماج کی زندگی میں حق کو معیار قرار نہیں دیتا  اور انسانوں کی دنیا سے باطل کو دور نہیں کرتاہے ۔جب تک باطل کی سلطنت باقی ہو  اور فرعون کے زمانے کی طرح اہل حق کمزور ہوں تو تب تک سماج   حق کی حکومت کی برکات سے محروم رہتا ہے۔ باطل کا قلع قمع کرنا اور اس کی سرکوبی کرنی چاہے ،  اور پھر حق کو اس  کی جگہ قرار دینا  چاہئے ، جب کہ حق اور حق پرستوں کو غالب اور باطل سپاہ کو مغلوب ہونا چاہئے  تا کہ «لِیحِقَّ الْحَقَّ وَیبْطِلَ الْباطِلَ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ» کا معنی ظاہر ہو جائے ۔

اسلام تاریک اور باطل پرستوں کے خلاف تحریک اور انقلاب کا دین ہے ؛ اور یہ کوئی نظریہ اور سادہ ایجابی اور علمی عقیدہ نہیں ہے ۔

یہ درس اس واقعے کا ایک اہم درس ہے اور ہمارے زمانے کے مسلمانوں کو اس کی ضرورت کو سمجھنا چاہئے اور اس پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے مسلمانوں کے زوال کی وجہ تلاش کرنی چاہئے ۔

موجودہ دور میں اسلام اپنے لاکھوں کروڑوں پیروکاروں کے لئے ایک سادہ عقیدہ اور ایک صحیح و استوار نظریہ بن گیا ہے ۔ منطق ، علم اور برہان بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں  ، دوسرے مفاہیم اور عالم خارج کے ساتھ اس کے ارتباط کو مدنظر نہیں رکھا جاتا ۔مسلمان اپنی آبادی کی کثرت ، اثر و رسوخ اور اپنے پاس موجود ممالک ، تحریک و نہضت ، حکومت کی تشکیل ، صنعتی و علمی ترقی اور اسلام کو تطبیق کو  اپنی صورتحال اور اپنے اجتماع کو عملی طور پر اسلام کے مفاہیم کا جزء نہیں سمجھتے ۔

 ۲- مؤمنوں کو خدا کی تدبیر اور اس کی مدد پر بھروسہ کرنا چاہئے ، اور توکل کے ذریعے اہل باطل کے مقابلے میں خود کو  ہارا اور بھکرا ہوا تصور نہ کریں ، اور یہ جان لیں کہ  جو چیز اہل باطل کے مقابلے میں حق پرستوں  کے جہاد میں کامیابی اور غلبہ پانے کا سبب بنتی ہے وہ مبدأ و حقیقت پر ایمان ، ثابت قدمی ، استقامت ، شرافت  اور ہدف و مقصد ہے ۔

غزوۂ بدر کے مجاہدین مضبوط جذبے ، حق کی مدد کے عزم و شوق ، شہادت کی خواہش ، لقاء اللہ (یعنی خدا سے ملاقات) کے لئے جہاد کر رہے تھے  کیونکہ جہاد «اِحدى الحُسْنَیینْ» ، کامیابی و کامرانی اور شہادت و بہشت کا باعث ہے ۔ انہوں نے ہتھیاروں اور بہت زیادہ جنگی آلات ، تکبر اور خود خواہی پر فخر کرنے سے گریز کیا ۔

ان چیزوں کی مدد سے اہل حق ہمیشہ کامیاب ہیں ، چاہے وہ ظاہری طور پر مغلوب ہو جائیں ، اور اہل باطل ہمیشہ مغلوب ہیں چاہے وہ ظاہری طور پر غالب آ جائیں ۔

خلاصہ کے طور پر (جیسا کہ غزوۂ بدر کے بارے میں آیات سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے)کامیابی کے اسباب  یہ ہیں :

۱- جہاد ، دشمن سے جنگ اور اہل باطل سے ہر قسم کے مقابلے کے دوران ثابت قدمی ۔

۲- ذكر خدا سے اتصال ، اور اس کی مدد اور تدبیر پر بھروسہ ۔

۳- خدا و رسول کی اطاعت۔

۴- نزاع و اختلاف سے پرہیز ۔

۵- خطرات اور جہاد کی مشکلات اور مصائب پر صبر  ۔

۶- ریاكاری ، ظلم و ستم اور خود پسندی سے پرہیز ۔

یہ ایسی صفات ہیں جو تقریباً آج کے مسلمانوں میں کم ہیں ۔ کفّار کے مقابلہ میں ان کی کمزوری اور شکست کی وجہ انہی صفات کا فقدان ہے ۔

اگر صدر اسلام کے مسلمانوں کو کسی جنگ میں شکست کا  سامنا کرنا پڑتا ، یا  وہ  اپنی معاشی کمزوری کی وجہ سے اسلحہ اور جنگی ساز و سامان میں دشمن کو طاقتور سمجھتے تھے تو پھر بھی وہ کبھی روحانی طور پر پیچھے نہیں ہٹے اور ان کے سامنے تسلیم نہیں ہوئے ، بلکہ وہ اپنے اثاثوں کو دشمن کے اثاثوں سے زیادہ قیمتی اور اہم سمجھتے تھے  ، اور ایمان کی نعمت کو ہر چیز سے برتر شمار کرتے تھے  اور ا پنی معنوی و فکری طاقت کو دشمن کی مادی و ظاہری طاقت پر غالب اور اس سے برتر سمجھتے تھے ۔

ہمارے زمانے کے مسلمانوں نے خدا کی نصرت ، فکری و معنوی سرمائے اور روحانی شجاعت پر بھروسہ کرنے کی بجائے بیگانوں کی مادی طاقت پر زیادہ بھروسہ کیا ہے ،  اور  ان کے کھوکھلے وعدوں  اور سیاسی حربوں سے دھوکہ کھایا ہے ،  اور  انہوں نے ان کی بری عادتوں کی تقلید کرتے ہوئے ایک دوسرے کی ہی رقابت کی ہے  ، مذہبی  عادات و رسومات کو پامال کرتے ہوئے اسلامی ذمہ داریوں کو نظرانداز کرکے انہوں نے خود کو بیگانوں سے قریب کیا ہے ۔ کچھ لوگ اتنے مغرب زدہ اور مغربی تہذٰب کے دلدادہ ہیں کہ وہ کسی یبین الاقوامی  اجلاس میں فرضی طور پر بھی قومی اور اسلامی لباس میں شرکت نہیں کر سکتے ، حتی وہ ٹائی باندھنے میں بھی کوتاہی نہیں کرتے  جو رقیب کا ایک بند ہے اور وہ اپنی رسمی محافل میں کسی بھی ایسے شخص کو شریک ہونے کی اجازت نہیں دیتے جس نے یہ بند (ٹائی) نہ باندھا ہو ، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دوسری اقوام بین الاقوامی اجلاس میں بھی اپنا قومی لباس پہن کر شریک ہوتی ہیں  اور کوئی شخص بھی ان کے اس عمل کو ان کی پسماندگی کی علامت نہیں سمجھتا ۔

۳- اسلامی اتحاد مسلمانوں کی طاقت ، شان و شوکت اور فتح کا سب سے بڑا ذریعہ تھا ؛ جو  آج منافقت اور ملکوں کی تقسیم میں بدل گیا ہے۔ ہر مقام اور آب و ہوا کے لحاظ سے ہر  علاقہ الگ ، منفرد اور مستقل معاشرہ بن گیا ہے ، جب کہ  چھوٹی اور کمزور حکومتوں نے بھی عالم اسلام میں تفرقہ اور تقسیم کی قیادت کی ہے ۔ اپنے ذاتی مفادات کے لئے وہ کبھی بھی مشرق و مغرب کا استحصال کرنے والوں کے مفادات کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ نیز وہ اسلامی وحدت و اتحاد کی طرف بڑھنے ، ان غلط اور جعلی فاصلوں کو دور کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں ، یوں وہ عالم اسلام کو اس کی مرکزی قوت و طاقت ، مرکز ثقل اور ایک انجمن ،  ادارہ یا ایک حکومت سے محروم کر رہے ہیں کہ جو اسلامی دنیا کی قیادت کرے ۔

ہر جگہ کوئی نہ کوئی آواز بلند ہے لیکن مغربی نیشنلزم (Western Nationalism) اور دوسرے قوم پرست عناصر کی آواز نے کانوں کو بہرہ کر دیا ہے اور مسلم اقوام و ملل کو دوسروں کے فائدہ کے لئے ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کردیا ہے ۔

عالم اسلام کے قلب میں یہودی ریاست کی بقاء کا سب سے بڑا عنصر مسلمانوں میں یہی اختلاف اور پراکندگی ہے اور یہ حکومتی سربراہان ہی مسلمانوں کی کامیابی اور فتح کی راہ میں حائل ہیں ۔

اس دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قیادت میں مسلمانوں کی ایک حکومت تھی اور مسلمان متحد قوم تھی ، اور پورے عالم اسلام میں کہیں بھی  کوئی ’’قومی گروہ‘‘ یا کوئی ’’علیحدگی پسند گروہ ‘‘ نہیں تھا ۔

کوئی بھی شخص اپنے لئے کوئی علاقہ ہتھیانے یا اس پر قبضہ کرنے کے بارے میں نہیں سوچتا تھا ۔ حکومتوں کے خلاف قیام کرنے والوں میں سے ہر ایک مسلمان اور اسلامی افکار کا پیروکار تھا اور ان کا ہدف و مقصد علیحدگی نہیں تھا ، بلکہ اصلاح  اور اسلامی حکومت کی تشکیل ہی ان کا مقصد تھا ۔

پھر مسلمانوں کے لئے وہ دن بھی آیا کہ ہر علاقے میں کوئی طاقتور  یا دشمن  اور استعمار  کی کٹھ پتلیوں نے خود کو ایک مقامی رہنما کے طور پر متعارف کرایا اور مسلمانوں نے دشمن کے جھوٹے پروپیگنڈوں  اور اشتعال انگیزی کی وجہ سے دوسرے مسلمانوں کے مقابلے  میں کھڑا کر دیا  اور غریب عوام کو  اپنی حکومت کے لئے قربان کر دیا ۔

پس وہ امت واحدہ اور یگانہ سماج کہاں ہے کہ جس کی طرف قرآن ہمیں دعوت دیتا ہے ؟ اور ان اقوام میں سے وہ کون سی قوم ہے؟ اور قرآن کی یہ آیت «أَشِدّاءُ عَلَى الْكُفّارِ رُحَماءُ بَینَهُمْ» ، اور یہ   آیت «اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنینَ اَعِزَّةٍ علَى الْكافِرینَ» جس قوم کی توصیف بیان کر رہی ہے ، اس قوم کو کہاں تلاش کرنا چاہئے ؟

ایسے ہی نقائص اور برائیوں نے مسلم معاشرے کو بیمار کردیا ہے ، جب کہ صدر اسلام کے مسلمان ان سے محفوظ تھے ، اور جب تک ان بیماریوں کا علاج نہ ہو جائے ؛ امت مسلمہ ماضی کی شان و شوکت اور عظمت حاصل نہیں کر سکتی ۔

 حوالہ جات :

۱- السیرة النبویه (ابن‌ ہشام)، ج ۱ ، ص ۶۲۶ ؛ مسار ‌الشیعه (شیخ مفید) ، ص ۲۹ ؛ توضیح‌ المقاصد (شیخ بہائی) ، ص ۱۶ .

۲- السیرة النبویه (ابن‌ ہشام)، ج 1، ص 621؛ المغازی (واقدی)، ج 1، ص 59؛ تاریخ (طبری) ، ج 2، ص 441.

۳- المنصف (ابن ابی ‌شیبه کوفی) ، ج 7، ص 95؛ ج 8، ص 474؛ مجمع‌ البیان (طبرسی)، ج 4، ص 437 ; بحار الأنوار (علامہ مجلسی)، ج 19، ص 221.

۴- السیرة‌ النبویه (ابن‌ ہشام)، ج 1، ص 612 ـ 613؛ مجمع‌ الزوائد (ہیثمی) ، ج 6، ص 92 ـ93.

۵- الطبقات‌ الکبری (ابن‌ سعد)، ج ‌3، ص 16.

۶- تاریخ (طبری)، ج 2، ص 138.

۷- الارشاد شیخ مفید، ج 1، ص 70 ـ 72.

۸- صحیح بخاری، ج 5، ص 6 ـ 7 ؛ صحیح مسلم (مسلم نیشابوری) ج 8، ص 246؛ تفسیر فرات کوفی ، ص 271 ـ 272؛ جامع‌ البیان (طبری) ، ج 17، ص 172ـ 173؛ اسباب‌ النزول (واحدی) ، ص 231؛ مجمع‌ البیان (طبرسی)  ج 7، ص 139.

۹- حلیة‌ الأولیاء (ابو نعیم اصفہانی)، ج 9، ص 145؛ فضائل‌ الخمسه (فیروز آبادی)، ج 2، ص 316 – 317.

۱۰- تاریخ (طبری) ، ج 2، ص 197.

۱۱- تاریخ مدینة دمشق (ابن‌ عساکر)، ج 42، ص 337؛ ذخائر العقبی (طبری)، ص 68؛ جواہر المطالب (ابن‌ دمشقی ) ، ج 1، ص 91؛ ، کنز العمال (متقی ہندی)، ج 10، ص 421.

۱۲- الامالی (طوسی) ، ص 197 ـ 198؛ بشارة المصطفی (طبری) ، ص 94 ـ 95 ؛ کشف‌ الغمه (اربلی)، ج 2، ص ‌18 ـ 19.

 

Friday / 30 April / 2021