پنجشنبه: 1403/01/9
Printer-friendly versionSend by email
توحید و ولایت کا رابطہ
امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام کی شہادت کی مناسبت سے آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی مدظلہ الوارف کے نوشتہ جات میں امام علیہ السلام کی ایک حدیث کی شرح

بسم الله الرحمن الرحیم

کتاب شریف ’’عیون اخبار الرضا علیه السلام‘‘ میں وارد ہوا ہے : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی بْنِ الْـمُتَوَکِّلِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْـحُسَیْنِ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَر الْأَسَدیُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْـحُسَینِ الصَّوْلیُّ قَالَ: حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ عَقیلٍ عَنْ إسْحَاقَ بْنِ رَاهَوَیْهَ قَالَ: لَـمَّا وَافیَ أبُو الْـحَسَنِ الرِّضَا عَلَیْهِ السَّلَامُ نیسَابُورَ، وَأَرَادَ أَنْ یَخْرُجَ مِنْهَا إلی الْـمَأْمُونِ اجْتَمَعَ عَلَیْهِ أَصْحَابُ الْـحَدیثِ، فَقَالُوا لَهُ: یَا ابْنَ رَسُولِ الله تَرْحَلُ عَنَّا وَ لَا تُحَدِّثُنَا بِحَدیثٍ فَنَسْتَفیدَهُ مِنْكَ؟ وَکَانَ قَدْ قَعَدَ فی الْعمَّـارِیَّةِ، فَأَطْلَعَ رَأْسَهُ وَقَالَ: «سَمِعْتُ أَبی مُوسَی بْنَ جَعْفَرٍ یَقُولُ: سَمِعْتُ أَبی جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ یَقُولُ: سَمِعْتُ أَبی مُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ یَقُولُ: سَمِعتُ أَبی عَلیَّ بْنَ الْـحُسَیْنِ یَقُولُ: سَمِعْتُ أَبی الْحُسَیْنَ بْنَ عَلِیٍّ یَقُولُ: سَمِعْتُ أَبِی أَمیرَ المُؤْمِنینَ عَلی بْنَ أَبی  طَالِبٍ عَلَیهِمُ  السَّلَامُ یَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی  الله عَلَیْهِ وَآلِهِ یَقُولُ: سَمِعْتُ جِبْرَئیلَ یَقُولُ: سَمِعْتُ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ: لَا إلَهَ إِلَّا الله حِصْنِی فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ مِنْ عَذَابی». قَالَ: فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا: «بِشُرُوطِهَا وَأَنَا مِنْ شُرُوطِهَا۔ »

 

  • خراسان کی جانب امام رضا علیہ السلام کے سفر میں آپ کا فقید المثال استقبال

امام رضا علیہ السلام کو مأمون کے حکم پر اور اس کی طرف سے مجبور کرنے کی وجہ سے خراسان کی طرف سفر کرنا پڑا ۔ اس سفر کے دوران  امام رضا علیہ السلام جس شہر اوردیہات میں بھی داخل ہوئے ؛ وہاں اہل بیت علیہم السلام کے شیعوں ، محبوں اور آپ  کی زیارت کے مشتاق افرادنے بڑے جوش و خروش اور  ذو ق و شوق سے آپ کا استقبال کیا اور آپ کی پذیرائی کی ۔وہ لوگ  نے  امام علیہ السلام کی تشریف آوری کا خیر مقدم کرتے اور اپنے ولائی جذبات اور عقیدت کا اظہار کرتے تھے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خاندان اور ذریت سے عہد ولایت کی تجدید کرتے تھے ۔

امام رضا علیہ السلام اس سفر کے دوران جن شہروں سے گزرے ان میں سے ایک نیشاپور ہے ۔ سب لوگ تیار تھے اور آپ کا استقبال کرنے کے لئے گھروں سے باہر نکلے ہوئے تھے  اور وہ امام علیہ السلام کی سواری کا استقبال کرنے کا افتخار حاصل کرنے  اور آپ کے استقبال کے لئے آنے والے جم غفیر میں یہ سعادت اور شرف حاصل کرنے کے لئے آپ کے انتظار میں ایک ایک منٹ اور ایک ایک سیکنڈ شمارکر رہے تھے ۔ امام رضا علیہ السلام نے اس شان و شوکت ،  ملکوتی جلال  اور معنوی عظمت سے شہر نیشاپور کو مزین کر دیا تھا ۔

  جیسا کہ نقل ہوا ہے :امام رضا علیہ السلام عماری میں تشریف فرما تھے  اور آپ کا نورانی و ملکوتی چہرہ لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ تھا  اور وہاں لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر  آپ کے حسن و جمال اور منور  چہرے کی زیارت کا مشتاق تھا ، ہر طرف لوگوں کا ہجوم تھا اور وہ نعرے  لگا رہے تھے ، تکبیر کہہ رہے تھے اور صلوات پڑھ رہے تھے ۔ 

 

  • حکیمانہ سوال ؛ سوال کرنے والے کی معرفت کی دلیل 

 ان لوگوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث کے دو پیشوا و حافظ آگے بڑے  کہ جن کے بارے میں اس طرح سے ذکر ہوا ہے  : فَعَرَضَ لَهُ الْإِمَامَانِ الْـحَافِظَانِ لِلْأَحَادیثِ النَّبَوِیَّةِ أَبُو زُرْعَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَسْلَمَ الطُّوسِیُّ .

علم و حدیث کی ان دو بزرگ شخصیات نے امام رضا علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے آپ  کی خدمت میں کچھ اس طرح سے درخواست کی : «أَیُّهَا السُّلَالَةُ الطَّاهِرَةُ الرَّضِیَّةُ، أَیُّهَا الْـخُلَاصَةُ الزَّاكِیَةُ النَّبَوِیَّةُ بِحَقِّ آبَائِكَ الْأَطْهَرینَ وَأسْلَافِكَ الْأَكْرَمینَ إِلَّا أَرَیْتَنَا وَجْهَكَ الْـمُبَارَكَ الْـمَیْمُونَ، وَرَوَیْتَ لَنَا حَدیثاً عَنْ آبَائِكَ عَنْ جَدِّكَ نَذكُرُكَ بِهِ. »

جی ہاں ! روایات میں ہے : «حُسْنُ السُّؤَالِ نِصْفُ الْعِلْمِ»؛ بزرگوں سے مختلف اشخاص کے سوال کی درخواست سوال کرنے والے کی شخصیت اور اس کی معرفت کی دلیل ہے ، اور سوال نصف علم ہے ۔ ان دو شخصیات نے اس عظیم الشأن مقام پر امام رضا علیہ السلام سے ایک ایسا سوال کیا کہ امام علیہ السلام نے انہیں اور وہاں موجود تمام افراد کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روایت و حدیث سے سرفراز فرمایا ۔

ہماری تمام تر تلاش اور جستجو کے باوجود ہمیں نیشاپور کے عوام کو میسر آنے والے اس سنہری موقع پر اس سے زیادہ جامع اور بامعنی سوال نہیں ملتا ۔ انہوں نے ایک ایسی حدیث کے بارے میں سوال پوچھا جسے نقل کرنے کا افتخار رہتی دنیا تک  ہر زمانے میں باقی رہےگا  ، اور لوگ  زبان بہ زبان ،قلم بہ قلم اور قرن بہ قرن اسے بیان کرتے رہیں گے ، سنتے رہیں گے  ، لکھتے رہیں گے  اور پڑھتے رہیں گے ۔

معرفت کی جستجو میں کئے جانے والے اس سوال کے بعد امام رضا علیہ السلام نے اس سوال کا جواب دینے کے لئے  اپنی سواری کو روکا  اور اپنے رخ انور سے پردہ ہٹایا اور مسلمانوں کی آنکھوں کو اپنے مبارک اور نورانی حسن و جمال  سے روشن فرمایا ، اور اس کے بارے میں یہ عبارت نقل ہوئی ہے : «فَاستَوقَفَ البَغلَةَ وَ رَفَعَ المظَلَّةَ وَ أقَرَّ عُیُونَ المُسلِمینَ بِطَلعَتِهِ المُبَارَکةِ المیمُونَةِ» ۔

جب لوگوں  کی نظر امام کے جہاں آرا حسن و جمال پر پڑی تو سبھی اپنے ہوش کھو بیٹھے ، اور ان کی وہی حالت تھی جو جناب یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال کو دیکھ کر مصر  کی خواتین کی تھی اور اپنے وہ ان کے حسن کی تابانی میں خود کو بھی بھول گئی تھی ، اور ان کی زبان سے بے ساختہ نکل پڑا کہ : «مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِیمٌ» ۔

اسی وجہ سے ان کا  جوش و خروش اور خوشی و مسرت اپنی اوج پر تھی اور ان پر وجد کی کیفیت طاری تھی ، اور فضا تکبیر و تہلیل کی صداؤں سے گھونج رہی تھی ، کچھ لوگ عشق  و شوق سے گریہ کر رہے تھے ،  کچھ لوک امام کی رکاب یا آپ کی سواری کو چوم رہے تھے ، کچھ لوگ امام کے جمال کو دیکھ رہے تھے ، وہاں لوگوں کے جذبات ، خوشی اور جوش و خروش  اور صدائے تکبیر و تہلیل کی وجہ سے امام لوگوں کو حدیث سے سرفراز نہیں کر سکتے ہیں ۔

اس  منظر کو عبارت میں کچھ اس طرح سے بیان کیا گیا ہے :  «... إِلَی أَنِ انْتَصَفَ النَّهَارُ جَرَتِ الدُّمُوعُ کَالْأَنْهَارِ وَصَاحَتِ الْأَئِمَّةُ وَالْقُضَاةُ: مَعَاشِرَ النَّاسِ إسْمَعُوا وَعُوا وَلَا تُؤْذُوا رَسُولَ الله فی عِتْرَتِهِ وَأَنْصِتُوا»؛

آدھا دن گزر چکا تھا اور لوگ اسی طرح گریہ کر رہے ہیں ، اور (ان کی آنکھوں سے) نہر کی مانند آنسو جاری تھے ، یہاں تک کہ رہنماؤں اور قضاۃ ان پر چلائے کہ اے لوگو ! سنو ! ٹھہرو ! صبر کرو ! امام (علیہ  السلام) کو زحمت دے کر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اذیت نہ دو ؛ خاموش ہو جاؤ ۔

جب لوگ خاموش ہو گئے اور زبان و لسان خدائی سے حدیث لکھنے اور سننے کے لئے تیار ہو گئے تو امام علیہ السلام نے حدیث کی املاء شروع فرمائی ، لوگ سن کر دوسروں تک مطالب پہنچاتے تھے جس کے نتیجے میں انہوں نے سب لوگوں تک یہ مطالب پہنچا دیئے ۔

 

  • حدیث سلسلة الذّهب  کی اہمیت  

 اگرچہ یہ حدیث شریف سند کے لحاظ سے سلسلۃ الذہب کے نام شے مشہور و معروف ہے ، لیکن اہل معرفت جانتے ہیں کہ  اگر دنیا کی گرانبہا چیزوں میں سے اگر کوئی چیز سونے اور جواہرات سے ہزار گنا قیمتی ہو تو بھی وہ اس کے برابر نہیں ہو سکتی  کہ ہم اس سند کو اس سے تشبیہ دے سکیں ۔

اگر ہم پوری دنیا کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیں  ، اور اس حدیث کی سند یا اس کے ایک لفظ کو ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھ دیں تو اس حدیث کا پلڑا بھاری ہو  گا  اور یہ تشبیہ ؛ صورت و حقیقت کو مجاز  اور معقول کو محسوس سے تشبیہ دینے کی مانند ہے ،  اور اگر کسی مورد میں یہ تشبیہ دی بھی جائے تو یہ تنگیِ قافیہ کی وجہ سے  ہے ۔

 

  • کلمه «لا إله إلا الله» کی بے انتہا عظمت 

 متن ، مضمون اور معنی کے لحاظ سے یہ کلمۂ توحید ، شان و جلالت ، قدر و آثار اور برکات پر مشتمل ہے ، یہ ایسا کلمہ ہے  جس سے رسول اعظم خدا ، رسول توحید و یکتا پرستی نے اپنی دعوت کا آغاز کیا اور اسی کے استمرار کو جاری رکھا ۔

یہ ایسا کلمہ ہے جس میں انسان کی دنیا و آخرت کی سعادت اور اس کی عزت و کرامت مخفی ہے اور معنی میں ایمان اور عمل میں التزام اسی میں پوشیدہ ہے ۔ یہ ایسا کلمہ ہے جس میں ایک سلبی و منففی معنی ہے اور ایک جلیل ایجابی و ثبوتی معنی ہے ، جس میں شرک ، تمام خرافاتی عقائد ، اعتقادی گمراہی اور تمام رذیلہ اخلاق کو مسترد کر  دیا گیا ہے  ، اور جو توحید ، عقائد سلیمہ ، انبیاء کی تمام ہدایت ، اخلاق عالیہ اور فضائل کاملہ کے اصولوں کی بنیاد ہے  ۔

کلمۂ توحید ایک ایسا کلمہ ہے جس نے تمام اقوام ، تمام اصناف ، تمام ملکوں ، شہروں اور دیہاتوں کے رہنے والوں کو برابر اور مساوی قرار دیا ہے اور  جس نے تمام باطل اور موہوم امتیازات و افتخارات کو لغو ، بہودہ اور غیر معتبر قرار دے دیا ۔

کلمۂ توحید اور عقیدۂ توحید ؛ یعنی اس چیز پر عقیدہ رکھنا کہ خدا آسمان و زمین ، بڑے سے بڑے ہزاروں لاکھوں ممکنات ، آفتاب و مہتاب سے بھی بڑے ممکنات اور چھوٹے سے چھوٹے  اور ہزاروں گنا چھوٹے ذرات کا خالق ، سب کو روزی دینے والا ، واحد ، یکتا ، بے مثل ، بے مثال اور  بے نظیر  ہے کہ جس کا کوئی شریک ، یاور و مدد گار اور وزیر نہیں ہے ۔

توحید یعنی  ادیان میں آج جو عقیدہ رائج ہے ، جس کے بارے میں پروفیسر گوستاولوبون کہتے ہیں : «یہ ایک تاج افتخار ہے جو صرف اسلام کے سر پر سجایا جا سکتا ہے ۔ »

یہ کلمۂ توحید «لَا إلهَ إلّا الله»، کلمهٔ اسلام، کلمهٔ خدا، کلمهٔ عالم امکان اور بحر و برّ ، ،زمین و آسمان ، درخت ، نباتات ، فرشتوں ، انسانوِں ، حیوانوں، ہر جماد و نبات ، دریا اور بارش کے پانی کے قطروں کی آواز ، ایٹم اور کائنات کی ہر چیز کا کلمہ ہے «وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِیحَهُمْ» ۔

اگر نیشاپور کے اس عظیم الشأن اجتماع میں اس حدیث سے بڑھ کر کوئی جامع ، مفید ، فصیح و بلیغ اور واضح حدیث ہوتی تو امام رضا علیہ السلام وہی حدیث بیان فرماتے ۔

امام رضا علیہ السلام نے لوگوں کو توحید ، یکتا شناسی اور یکتا پرستی کا درس بھی دیا  اور لوگوں کو اس چیز کا بھی درس دیا جو توحید کے لئے اکمال و اتمام اور مبین ہے اور جو توحید کی تعریف کی تفسیر ہے ، یعنی آپ نے لوگوں کو اپنی اور تمام ائمہ طاہرین علیہم السلام کی ولایت کی طرف ہدایت فرمائی ۔

 

  • امام علیہ السلام کے ذریعے خدا کی شناخت

 یہ واضح و بدیہی ہے کہ اس کلمۂ طیبہ کا صرف تلفظ ہی ، اور رسالت کی گواہی ہسے ہی خاص شرعی احکام مرتب ہوتے ہیں ، لیکن اس کے معنوی آثار اور آتش جہنم سے امان صرف اسی صورت میں مرتب ہوں گے کہ جب صحیح معرفت و بصیرت اور شناخت ہو ۔ لیکن چونکہ یہ آگاہی و معرفت امام علیہ السلام کی معرفت و ولایت کے بغیر محقق نہیں ہو سکتی اور یہ کمی و کاستی اور انحرافات سے محفوظ نہیں ہو سکتی ، اس لئے آپ  نے فرمایا : «بِشُرُوطِهَا وَأنَا مِنْ شُرُوطِهَا»؛ 

خدا کو امام کے ذریعے پہچاننا چاہئے کیونکہ امام ہی خدا تک پہنچنے کا راستہ ہے اوراس کے علاوہ کوئی بھی راستہ خطا و اشتباہ سے محفوظ نہیں ہے :

قطع این مرحله بی همرهی خضر مکن           ظلمات است بترس از خطر گمراهی

تجسّم کے قول ، تعطیل کے قول ، جبر کے قول ، تعدّد قدما کے قول ، وحدت وجود کے قول اور دوسرے باطل اقوال کے خطرات درپیش ہیں اور صرف قرآن و عترت (ثقلین) کے تمسک سے ہی ان خطرات سے نجات پائی جا سکتی ہے ۔

Wednesday / 13 October / 2021