پنجشنبه: 1403/02/20
Printer-friendly versionSend by email
غير مولوي حضرات كي امامت كے متعلق ايك استفتاء كا جواب

خدمت ارجمند مرجع عالیقدر جہان تشیع حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی دام ظلہ العالی 
السلام علیكم 
بعض مساجد میں دیكھا گیا ہے كہ بعض غیر مولوی حضرات نماز جماعت پڑھاتے ہیں اور مومنین ان كی اقتدا كرتے ہیں ، كیا یہ كام شریعت كی نظر میں جائز ہے ؟ 

شكریہ 
بعض نماز گزار مومنین

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
علیكم السلام و رحمۃ اللہ
اصل سوال كا حكم جواز ہے یہاں تك كہ مولوی اور مجتہد حضرات بھی غیر مولوی اور غیر مجتہد كی اقتدا كر سكتے ہیں ۔ امام جماعت كی شرط ایمان ، عدالت اور اگر نماز پڑھنے والے مرد اور عورت دونوں ہوں تو امام كے لئے مرد ہونا ضروری ہے ۔ 
لیكن مساجد میں جماعت كا مسئلہ تو چونكہ عالم كے پیچھے نماز پڑھنے كا ثواب كئی گنا زیادہ ہے ۔ اور یہ قدیمی سنت چلی آرہی ہے كہ علماء حضرات مساجد اور ان مقدس محاذ سے دین اور احكام كی تبلیغ كرتے ہیں ، لوگوں كی ہدایت كرتے ہیں ، امر بالمعروف و نہی عن المنكر كا فریضہ ادا كرتے ہیں ،دین پر ہونے والے اعتراضات كا جواب دیتے ہیں لہذا اسلامی معاشرہ كی اصلاح اور اسلامی سیاست كی ترقی كے لئے یہ مقام بہت ہی اہمیت ركھتا ہے ۔ چونكہ آج كے دور میں بعض روشن فكر نما حضرات علماء كو اپنی راہ كا كانٹا سمجھتے ہیں لہذا غیر مولوی كے پیچھے نماز پڑھنے كی ترویج كرنا چاہتے ہیں ۔ 
گزشتہ علماء كی سیرت و سنت كو برقرار ركھتے ہوئے یہ محاذ علماء اور مولوی حضرات ہی كے ہاتھوں میں رہے تو بہتر ہے تاكہ كج فكر لوگ اس عظیم كام میں رخنہ اندازی نہ كر سكیں ۔ البتہ اگر كہیں اتفاقا ایك مولوی نماز كے لئے حاضر نہ ہو سكا تو غیر مولوی كی اقتدا كرنا جبكہ اس میں امام جماعت كے شرائط موجود ہوں ، صحیح ہے ۔ واللہ العالم 
لطف اللہ صافی ، ۴ جمادی الثانیہ ۱۴۳۳

 

Sunday / 11 January / 2015