شنبه: 1403/02/15
Printer-friendly versionSend by email
حرفِ اوّل ...
امیر المؤمنین حضرت علی بن أبی‌طالب علیہما ‌السلام کے میلاد مسعود کی مناسبت سے آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی کا ایک نوشتہ

بسم الله الرحمن الرحیم
این شرح بی‎نهایت كز وصف یار گفتند *** حـرفی است از هزاران كاندر عبارت آمد

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات والاءصفات کے بعد امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام کی ذات و شخصیت اشرف كلمات الهیّه، اكبر آیات ربّانیه، ادلّ دلائل جامعه، اتمّ براہین ساطعه، وسائل كافیه ، مظهر العجائب و معدن الغرائب ہے ۔ آپ تمام برتر انسانی عظمتوں کے حامل ہیں اور آپ برحق خلیفۃ اللہ ہیں ۔ آپ سے محبت ؛ صحیفۂ مؤمن کا عنوان اور ولادت میں طہارت کی علامت ہے ۔ اگر تمام گویا و ناطق زبانیں انسان کے اختیار میں ہوں اور وہ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ آپ کی مدح و ثناء کرنا چاہئے تو پھر بھی وہ آپ کی مدح و ثناء کے  حرف اوّل سے زیادہ نہیں کہہ پائے گا ۔

حالانکہ مسلمانوں کے درمیان مشہور اور معتبر احادیث و روایات کی رو سے اس باب میں پیغمبر اعظم ، عقل کل ، خاتم رسل اور ہادی سبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معنی سے بھرپور تعریفات و تمجیدات بیان فرمائی ہیں اور امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام کو حق اور قرآن کے ساتھ ، اور حق اور قرآن کو علی علیہ السلام کے ساتھ قرار دیا ہے ۔ اور انہیں آپس میں اس طرح سے لازم الاتصال قرار دیا ہے کہ جو کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے ۔ نیز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

"وَ الَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَوْ لَا أَنْ‏ تَقُولَ‏ طَوَائِفُ‏ مِنْ‏ أُمَّتِی‏ فِیكَ مَا قَالَتِ النَّصَارَى فِی ابْنِ مَرْیَمَ لَقُلْتُ الْیَوْمَ فِیكَ مَقَالًا لَا تَمُرُّ بِمَلَإٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ إِلَّا أَخَذُوا التُّرَابَ مِنْ تَحْتِ قَدَمَیْكَ لِلْبَرَكَةِ؛

مجھے قسم ہے اس ذات اقدس  کی کہ جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ! اگر میری امت کے کچھ گروہ تمہارے (علی علیہ السلام) بارے میں وہ کچھ نہ کہتے کہ جو نصاری عیسی بن مریم کے بارے میں کہتے تھے تو میں تمہارے بارے میں ایسی باتیں (اسرار) بیان کرتا کہ مسلمانوں میں سے کوئی ایک گروہ بھی ایسا نہ ہوتا  جو تمہارے قدموں کی خاک کو تبرک اور برکت کے لئے نہ اٹھاتا"(1)

اور کبھی رسول  خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زبان معجز بیان اور حقیقت ترجمان سے یوں بیان فرمایا : "لَوْ أَنَّ الْبَحْرَ مِدَادٌ وَ الْغِیَاضَ أَقْلَامٌ وَ الْإِنْسَ‏ كُتَّابٌ‏ وَ الْجِنَّ حُسَّابٌ مَا أَحْصَوْا فَضَائِلَكَ یَا أَبَا الْحَسَنِ؛

اے علی ! اگر دریا سیاہی ، درخت قلم ، انسان کاتب ، اور جنّات حساب کرنے والے بن جائیں تو پھر بھی وہ تمہارے فضائل کو شمار نہیں کر سکتے ۔"(2)

کلمۃ اللہ کی سربلندی اور حق کے دفاع کے لئے راہ خدا میں اس مرد مجاہد کے جہاد کو جنّ و انس کی عبادتوں ، یا تمام امت سے افضل قرار دیا گیا ہے ۔

لہذا اب کوئی اور امیر المؤمنین حضرت امام علی بن ابی طالب علیہما السلام کی مدح و ثناء میں کیا کہہ سکتا ہے ؟! کیونکہ آفتاب تابان محمدی ، اور بحر بیکرانِ علم احمدی صلوات اللہ علیہ و آلہ کے سامنے سب ایک ذرّے اور قطرے کی مانند ہیں ، بلکہ اس سے بھی کمتر ہیں۔   

حقیقت یہ ہے کہ انتیس حروف تہجی  (فارسی یا عربی زبان کے حروف تہجی ) پر مشتمل کلمات اور جملوں کے ذریعے خدا کے خاص اور مخلص بندوں میں سے بزرگ ہستی کی مدح و ثناء نہیں کی جا سکتی کہ جن کی خداوند متعال نے خود قرآن مجید کی متعدد آیات میں مدح و ثناء اور توصیف و ستائش بیان فرمائی ہے ۔

امیر المؤمنین ، مولی  الموحّدین ، سید الزاہدین ، پیشوائے مجاہدین  امام عظیم علی بن ابی طالب علیہما السلام کی مدح و ثناء میں اپنی کی عظمتوں کے ایک گوشہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

کسی نے اس جملے کے ذریعے مولائے کائنات کی مدح کی : "إحتیاجُ الكُلِّ إلَیْهِ وَ إسْتِغْنائُه عَنِ الكُلِّ دَلیلٌ عَلى أنَّه إمَامُ الكُلِّ ؛ سب لوگ اس کے محتاج ہیں اور اور وہ سب سے بے نیاز ہے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سب کا امام ہے ۔ "(3)

نیز کسی نے امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام کے کلام کی توصیف و تمجید میں یوں کہا : "كلامُهُ دُونَ كَلامِ الخَالِقِ وَ فَوْقَ كَلامِ الْمَخْلُوقینَ؛ ان کا کلام خالق کے کلام سے پائین تر اور مخلوق کے کلام سے بالا تر ہے ۔ "(4) سب نے مولائے کائنات امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے مناقب میں سے کسی ایک فضیلت کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

چودہ صدیوں سے علماء و حکماء حضرت امام علی علیہ السلام کے فضائل بیان کر رہے ہیں اور آپ کے علم ، فضیلت ، زہد ، عدل اور کمالات انسانی کی ستائش کر رہے ہیں اور آنے والی نسلیں بھی ان کی مدح و ثناء اور توصیف و تمجید کرتی رہیں گی ۔

امیر المؤمنین امام المتقین علی بن ابی طالب علیہما السلام کے شخصیت کی شرح میں بے شمار قصائد و اشعار کہے گئے ، ہزاروں کتابیں اور مقالات لکھے گئے اور سب نے داد سخن دی لیکن اس کے باوجود پھر بھی متکلمین اور دانشور نکتۂ اوّل سے آگے نہیں بڑھ سکے ۔

جیسا کہ احادیث شریف میں بیان ہوا ہے کہ علی علیہ السلام کی ذات وہ معجزہ ہے کہ جو خداوند کریم نے خاتم الأنبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عطا فرمایا ۔ یہ ایسا معجزہ ہے کہ جو تمام گذشتہ انبیاء کے معجزات سے عظیم ، بزرگ اور زیادہ حیرت انگیز ہے ۔ ہم یہاں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے اس سخن کو بیان کرنا مناسب سمجھتے ہیں :

"الصُّورَةُ الإنْسَانِیَّةُ هِیَ أكْبَرُ حُجَجِ اللهِ عَلى خَلْقِهِ وَ هِیَ الكِتابُ الَّذی كَتَبَه بِیَدِهِ وَ هِیَ الهَیْكَلُ الّذی بَناهُ بِحِكْمَتِهِ وَ هِیَ مَجْمُوعُ صُوَرِ العَالَمینَ وَ هِیَ المُخْتَصَرُ مِنَ العُلُومِ فی اللَّوحِ الْمَحْفُوظِ"(5) ۔ علی علیہ السلام جیسی شخصیت کے ذریعے حقیقت و واقعیت بیان ہوتی ہے ۔

پس ہم پر لازم ہے کہ ہم اس امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام جیسی نعمت عظمیٰ ، آپ کی نعمت والایت اور حضرت صاحب الزمان ، ولیّ عصر ، مالك امر ، مولانا المہدی ارواح العالمین له الفداء تک آپ کے تمام فرزندوں جیسی بے مثال نمعت کے لئے خداوندم کریم کی بے پناہ حمد و ثناء کریں : اَلْحَمْدُللهِ الَّذی جَعَلَنا مِنَ الْمُتَمَسِّكینَ بِولایةِ اَمیرَالْمُؤْمِنینَ وَ الاَئِمَّةِ الْمَعْصُومینَ سِیّما خاتَمِهِمْ وَ قائِمِهِمْ صَلَواتُ اللهِ عَلَیهِمْ اَجْمَعینَ.

 

حوالہ جات :
۱ ، ۲ ۔  بحار الأنوار، جلد ‏40، باب  91 ، حدیث  114.
۳۔  بغیة الوعاة سیوطی، صفحه 243؛ تنقیح المقال مامقانی، جلد 1، صفحه 402، شماره 3769.
۴ ۔  شرح نهج البلاغة ابن أبی‌الحدید، جلد ‏1، صفحه 24.
۵ ۔  سورۂ بقرہ کی آیت ۲ کے ذیل میں تفسیر صافی سے منقول .

Monday / 9 April / 2018